ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
دوسری صورت یہ ہے اس کا یہ جواب ہے اسی طرح ایک ایک کر کے تمام ان تجاویز کو بیان کردیا جو میرے پاس لکھی ہوئی تھیں مجھ کو بڑی حیرت تھی کہ امیر صاحب کو ان تجاویز کا کیونکر علم ہوگیا آخر کار میں نے بعد بر خاست دربار کے عرض کیا کہ حضور کیا آپ کو کشف ہوتا ہے اور تمام واقعہ اپنی تحریر کا بیان کیا انہوں نے جواب دیا کہ کشف تو بزرگوں کو ہوتا ہے میں تو ایک گنہگار آدمی ہوں مگر میں نے عقل سے معلوم کیا کہ آپ میرے سامنے بعض مشورے میرے ملک کے متعلق پیش کرنا چاہتے ہیں اور وہ مشورے یہ ہوں گے میں نے عرض کیا کہ عقل سے ایسے مخفی امور کیسے معلوم ہوسکتے ہیں جواب دیا کہ عقل کی رسائی بھی وہاں تک ہی ہوتی ہے جہاں تک کشف کی مگر اتنا فرق ہے کہ کشف کی مثال ٹیلفون کی سی ہے کہ وہاں صریح الفاظ سنائی دیتے ہیں اور عقل کی مثال ٹیلیگراف کی سی ہے کہ اس میں کچھ تامل کرنا پڑتا ہے پھر انہیں سائل فاضل نے عرض کیا کہ حدیث میں آیا ہے کہ اتقوا فراسۃ المومن فانھ ینظر بنور اللہ اس میں مومن کی قید کیوں لگائی گئی جبکہ دوسرے عقلاء کو بھی فراست سے ادراک ہوسکتا ہے ارشاد فرمایا کہ چونکہ مومن کی فراست کو اس کے نور ایمانی سے تقویت ہوتی ہے اس لئے مومن کی فراست بہ نسبت غیر مومن کے قوی اور صحیح ہوتی ہے اس وجہ سے مومن کی قید لگائی گئی اور دلیل اس کی کہ مومن کی فراست کو اس کے نور ایمان سے تقویۃ ہوتی ہے اس آیت کا عموم ہے من یومن باللہ یھد قلبھ پھر اس کے بعد حضرت حکیم الامۃ دام ظلہم العالی نے ارشاد فرمایا کہ ایک تقریر فراست اور کشف کے اندر فرق کے متعلق ذہن میں اور آئی ہے جو پہلے سے زیادہ جامع ہے وہ یہ کہ فراست کی ابتداء تو علم ضروری سے ہوتی ہے اس کے بعد اس امر کے معلوم کرنے کے لئے کہ جو کچھ ہم سمجھے ہیں صحیح ہے یا نہیں کچھ تامل کرنا پڑتا ہے گو وہ تامل استدلال کے درجہ تک نہیں ہوتا مگر استدلال کے مشابہ ضروری ہوتا ہے اور کشف میں تامل کی بھی حاجت نہیں ہوتی خود بخود بداھتہ اس کی صحت اور عدم کا علم حاصل ہوجانا