ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
مسئلہ پر تنبیہ ضروری ہے وہ یہ کہ اس حدیث تغنٰی سے بعض اہل سماع تمسک کرتے ہیں اور قوالی کو فعل مسنون قرار دیتے ہیں لیکن ان کا یہ تمسک صحیح نہیں کیونکہ اول تو اس تغنی میں اور قوالی میں بہت بڑا فرق ہے کہ یہاں گھر کی نابالغ لڑکی ناواقف فن بلا اہتمام بلا تصنع بلا ساز وسمان وغیرہ کے ہے دوسرے اگر کسی خاص مقتضٰی کی بناء پر حضور سے احیانا کوئی فعل صادر ہوا ہوتو اس سے اس فعل کا مسنون ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ فعل مسنون اسی کو کہیں گے جو حضور کی عادت غلبہ ہو ۔ اس فرق کے معلوم نہ ہونے سے لوگ بہت غلطیاں کرتے ہیں اسی غلطی کی رفع کرنے کے واسطے اس موضوع پر میں نے ایک وعظ کہا تھا جس کا نام الغالب للطالب ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اپنے یا اپنے بزرگوں کے اخلاق وعادت کی حمایت میں جو بعض لوگ حضور کے افعال واقوال سے علی الاطلاق تمسک کرتے ہیں اور ان اقوال وافعال کے سنت ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں وہ صحیح نہیں کیونکہ حضور کی سنت وہ ہے جو غالب عادت حضور کی ہو مثلا حضور نے بعض موقعوں پر غصہ بھی کیا ہے تو اگر کوئی ایسا شخص ہو جونک چڑھا ہو اور کثرت سے غصہ کرتا ہو وہ اس سے تمسک نہیں کرسکتا کیونکہ حضور کی عادت شریف کثرت سے غصہ کرنے کی نہ تھی اس سے یہی کہا جائے گا کہ بھائی تمہارے غصہ میں اور حضور کے غصہ میں یہ فرق ہے کہ حضور کی عادت غصہ کی غالب نہ تھی اور تم پر غالب ہے لہذا یہ سنت نہیں البتہ اس کے متعلق ایک باریک بات اور ہے گو سننے کے قابل تو یہ مذکورہ بات بھی باریک تھی لیکن دوسری بات سننے کے بعد بھی باریک ہی رہے گی وہ بات یہ ہے کہ غلبہ کی دو قسمیں ہیں غلبہ حکمی اور غلبہ حقیقی غلبہ حقیقی تو ظاہر ہے کہ اس کا صدور کثیر ہوتا تھا ۔ اور غلبہ حکمی یہ ہے کہ اس کا صدور اس لئے کثیر نہ تھا کہ اس کا مقتضی غالب نہ تھا اور اگر مقتضی غالب ہوتا تو اس کا صدور بھی حقیقۃ غالب ہوتا مثلا حضور نے کسی کی بدتمیزی پر غصہ فرمایا اس سے اتنا تو معلوم ہوا کہ مقتضی پر غصہ کا ترتب سنت کے خلاف نہیں لیکن پھر جو حضور کی یہ غالب عادت نہ تھی اس کی یہ وجہ تھی