ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
تھیں گو معین تصوف تھیں اور اس اعانت کی مصلحت سے خلوت میں کہنے کی تھیں اور صرف خواص سے کہنے کی تھیں اور وہ مصلحت یہ تھی کہ جب ان پر یا ان کے متعلقین پر اس قسم کے حالات وارد ہوں تو وہ پریشان نہ ہو ۔ ان تحقیقات پر منطبق کر کیا کریں اور اس انطباق کو معیار ان واردات کی صحت وبطلان کا سمجھیں ۔ اس غرض سے ان کی تدوین ہوئی لیکن وہ چیزیں اب بازاروں میں بکنے لگیں ۔ چنانچہ آجکل ایسی ایسی کتابوں کے ترجمہ ہوتے ہیں جیسے فصوص الحکم ۔ اس لئے ان سے ضرار ہوا ۔ اس کی ایک ادنی مثال یہ ہے کہ کسی طب کی کتاب کا محض ترجمہ دیکھ کربیوی کو مسہل نہیں دیا جاسکتا حالانکہ وہ کتابیں صحیح ہیں لیکن وہ کتابیں طبیب کے لئے ہیں نہ کہ مریض کے لئے ۔ مریض کی کتاب تو خود طبیب ہے اور طبیب کی کتاب وہ کتاب ہے بلکہ اگر طبیب بھی خود علیل ہو تو وہ بھی دوسرے طبیب سے رجوع کرتا ہے کیونکہ رائی العلیل علیل اسی طرح وکیلوں کا اگر کوئی مقدمہ ہوتا ہے تو اس کی بھی پیروی وہ خود نہیں کرتے بلکہ دوسرے وکیلوں کے سپرد کرتے ہیں چنانچہ ایک وکیل مجھ کو ریل میں ملے جو اپنے کسی ذاتی مقدمہ کی پیروی کے لئے جارہے تھے میں نے کہا کہ آپ کو تو وکیل کرنا نہ پڑتا ہوگا ۔ کہا کہ کرنا پڑتا ہے کیونکہ بوجہ اس کے کے خود اپنا معاملہ ہوتا ہے طبیعت منتشر رہتی ہے اور دوسرا خالی الذہن ہوتا ہے اس کی قوۃ فکر یہ پوری طرح کام دیتی ہے اس لئے بہت اعلیٰ درجے کا وکیل بھی اپنے ذاتی مقدمات کی پیروی کے لئے دوسرے ہی وکیل کو مقرر کرتا ہے بس اسی طرح تصوف کی ایسی کتابیں منتیوں کے کام کی ہیں اور مبتدی کی کتاب خود منتہی ہے ۔ اسی سلسلہ میں یہ بھی فرمایا کہ یہ جو مقولہ مشہور ہے کہ تصوف ایک چیز سینہ بسینہ ہے سو جو چیز سینہ بسینہ پہنچتی ہے وہ البتہ سینہ ہی سے حاصل ہوتی ہے جس کا ذریعہ صحبت ہے ۔ اس میں تخصیص تصوف کی نہیں ۔ ہر فن کا یہی حال ہے کہ اس سے مناسبت جب ہی پیدا ہوتی ہے جب کسی استاد کی صحبت میں وہ فن سکیھا جاوے ۔ مثلا اگر کوئی شخص سال پھر کسی بڑھئی کو کام کرتے ہوئے دیکھتا رہے لیکن اس