ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
پاس بھجوایا جارہاتھا ۔ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ حساب کی صفائی بہت ضروری اور نہایت اچھی چیز ہے چنانچہ خود حضور صل اللہ علیہ وسلم حساب کتاب میں بہت صاف اور بے تکلف تھے ۔ آپ نے ایک بار مدینہ طیبہ کے سفر میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ایک اونٹ خریدا اور اس کے دام ادا کئے جن کے لینے میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بھی کوئی تکلف نہیں فرمایا ۔ حالانکہ اونٹ کی تو کیا حقیقت ہے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم تو حضور پر جان تک نثار کرنے کو ہر وقت تیار رہتے تھے ۔ مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد جب دام دیئے جانے لگے تو حضور نے حضرت بلال سے فرمایا ۔ اقضھ وزدہ فاعطاہ وزادہ قیراطا رواہ البخاری کذافی المشکوۃ فی باب قبل باب السلم والرہن اور ایک روایت میں حضرت جابر کا قول ہے ۔ یعنی تولو اور کچھ زیادہ تولو اس زمانہ میں سکے نہیں ہوتے تھے ۔ قیمت میں سونا یا چاندی تول کر دی جاتی تھی یہ تو روایت ہے کہ حضور نے طے شدہ قیمت سے زیادہ دام ادا فرمائے ۔ اب اگے فقیہ کی ضرورت ہے چنانچہ فقہاء نے اس سے یہ مسئلہ مستنبط کیا کہ اس قسم کی زیادت اگر مشروط ومعروف نہ ہو تو جائز ہے ورنہ ربوا ہوجائے گا ۔ حساب کی صفائی اتنی اہم چیز ہے کہ اللہ تعالٰی نے جیسے کتب سماویہ کے لئے انزلنا کا لفظ فرمایا ہے ویسے ہی میزان کے لئے بھی فرمایا ہے ۔ ارشاد ہے ۔ وانزلنا معہم الکتاب والمیزان دیکھئے کتاب کے ساتھ ہی میزان کا بھی نازل کرنا بیان فرمایا ہے اتنی اہم چیز ہے حساب کی صفائی اسی سلسلہ میں حضور ﷽ کی شان مبارک کے متعلق فرمایا کہ حضور تو ہر صفت میں کامل تھے حسن وجمال میں بھی قوت میں بھی حسن انتظام میں بھی لطافت طبع میں بھی اور دوسرے