ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
اس کا مضائقہ نہیں ۔ باقی اس کو جزو اعظم نہ بنایا جائے میں کئی بار اس کے بارے میں عرض کرچکا ہوں لیکن افسوس ہے کہ اس پر توجہ نہیں کی جاتی ۔ ارشاد پر احقر نے عرض کیا کہ اب انشاء اللہ تعالٰی اختصار اور انتخاب کا خاص خیال رکھوں گا حضرت بھی دعا فرمائیں کہ میں اپنی اس کو شش میں کامیاب ہو سکوں ۔ فرمایا کہ دعا کی فرمائش کا وقت یہ نہیں ہے ۔ اورکسی وقت دعا کرائیے ۔ اس وقت دعا کرانے میں تو اس کا ایہام ہوتا ہے کہ سب بوجھ میرے ہی اوپر رہا ۔ اگر کامیابی نہ ہوئی تو بس یہی کہنے کو ہوگا کہ آپ نے دعا نہیں کی ۔ ادھر پھر فرمایا کہ یہ دعا کا ملفوظ البتہ لکھنے کے قابل ہے ۔ پھر فرمایا کہ غیرضروری مضامین کا لکھنا ایسا ہی ہے جیسے بدعت چنانچہ بدعتیوں کو میں نے دیکھا ہے کہ جو ضروری چیز ہے یعنی نماز اس کو تو بہت بے ڈھنگے پن سے اور بے پروائی سے ادا کرتے ہیں لیکن وظیفوں کا بڑا اہتمام ہے ۔ یہاں تک کہ ایک صاحب کا تو یہ قول تھا کہ پیر صاحب کا بنایا ہوا وظیفہ قضا نہ ہو چاہئے نماز قضا ہوجاوے اھ پھر فرمایا کہ میں تو اس قول کی بھی تاویل کرتا ہوں وہ یہ بظاہر کہ گو بظاہر اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے پیر کے حکم کو خدا کے حکم سے بھی بڑا سمجھا لیکن چونکہ یہ بڑی سخت بات ہے بلکہ کفر ہے اس لئے اس کی تاویل ہی مناسب ہے تاکہ وہ کفر کے فتوے سے تو بچ جائے ۔ میرا جی چاہتا ہے کہ جہاں تک ہوسکے مسلمان کی تکفیر کیوں کی جائے ۔ اس بناء پر اس میں یہ تاویل کیوں نہ کرلی جائے کہ اس نے یہ سمجھا کہ پیر تو انسان ہے اگر اس کے وظیفے کو چھوڑ دیا گیا تو اس حکم عدولی کا اس پر اثر ہوگا اور اس کی خفگی کا وبال پڑے گا اور اللہ میاں تو متاثر ہونے سے پاک ہیں اگر ان کی حکم عدولی ہوئی وہ بڑے رحیم وکریم ہیں توبہ کرنے سے پھر راضی ہوجائیں گے ۔ غرض اس نے پھر بھی خدا کو پیر سے بڑا ہی سمجھا ۔ پیر کو خدا سے بڑھایا نہیں بلکہ گھٹایا ۔ اھ اس تاویل اور حسن ظن پر حاضرین سبحان اللہ سبحان اللہ کہنے لگے اور بعض خدام خاص نے اس ملفوظ کو قابل انضباط تجویز فرمایا ۔ اب احقر تو کلا علی