ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
ایک حکان بیان فرمائی جو ایک بزرگ سے نقل کی کہ ایک بزرگ پالکی میں بڑی شان وشوکت کیساتھ تشریف لئے جارہے تھے ادھر ادھر خدام جلومین تھے ۔ راستہ میں ایک ہندو فقیر ملا جو نہایت شکستہ حال تھا اس نے ان بزرگ سے پوچھا کہ آپ کے یہاں حدیث میں ہے ۔ الدنیا سجن المومن وجنۃ الکافر ۔ آپ مومن ہیں ۔ میں کافر ہوں لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے کہ آپ کے پاس تو پالکی بھی ہے خدام بھی ہیں ہرقسم کا تنعم ہے اور یہاں پالکی اور خدام تو کیا نان شبینہ بھی نہیں جب یہ ہے تو پھر اس حدیث کے کیا معنے ہوئے یہ سن کر ان بزرگ نے اپنا پاؤں پالکی سے باہر نکال کر زمین پر رکھ دیا اور اس ہندو فقیر سے کہا کہ میرے پاؤں پر اتنا پاؤں رکھ دے وہ بزرگ بڑے صاحب تصرف تھے ان کے پاؤں پر پاؤں رکھنا تھا کہ اس فقیر کو جنت دوزخ دونوں منکشف ہوگئے پھر ان بزرگ نے اس سے پوچھا کہ تونے کچھ دیکھا اس نے کہا جی ہاں جنت اور دوزخ دونوں کو دیکھ لیا پھر ان بزرگ نے پوچھا کہ اچھا اب یہ بتا کہ جنت میں جو کچھ تو نے دیکھا اس کے اعتبار سے باوجود اس تنعم کے یہ دنیا میرے لئے قید خانہ ہے یا نہیں اور دوزخ میں جو کچھ تونے دیکھا اس کے اعتبار سے تیرے لئے باوجود اس ناداری اور تکلیف کے یہ دنیا جنت ہے یا نہیں اس نے اس کا اقرار کیا ۔ تو ان بزرگ نے الدنیا سجن المومن وجنۃ الکفر کی یہ تفسیر فرمائی جو غالبا اس کے فہم کی رعایت سے فرمائی ۔ باقی میرے ذوق میں اس کی اور تفسیر ہے گو میں کیا اور میرا ذوق ہی کیا ۔ میرا ذوق حجت تھوڑا ہی ہے ۔ باقی میری طبیعت کے مناسب یہ تفسیر ہے کہ سجن کا خاصہ ہے کہ اس میں دل تنگی ہوتی ہے چاہے اس میں کتنے ہی آرام کے سامان ہوں چاہے اے کلاس ہو چاہے بی کلاس ہو چاہے باغ میں رکھا جائے لیکن پھر بھی اس میں دل نہیں لگتا تو جیسے جیل خانہ میں کسی کا جی نہیں لگتا چاہے جیسا آرام ہو اور گھر پر چاہے جتنی تکلیف ہو وہاں جی لگتا ہے اور قلب مطمئن رہتا ہے اسی طرح دنیا میں مومن کا دل نہیں لگتا چاہے جتنے آرام میں ہو ۔ جس کو اطمینان اور قناعت کہتے ہیں او اس دنیاوی زندگی پر