سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
انتہائی ظالم وجابراورمغرورومتکبرانسان کے پاس جانے اوراسے اللہ کاپیغام پہنچانے کاحکم دیاگیاتوپہلے انہیں اللہ کی قدرت کاکچھ مشاہدہ کرایاگیا،جیساکہ قرآن کریم میں ارشادہے: {وَمَا تِلْکَ بِیَمِینِکَ یَا مُوسَیٰ} (۱) یعنی ’’اے موسیٰ آپ کے ہاتھ میں یہ کیاہے؟ ‘‘ اورپھران کے ہاتھ میں موجوداس لاٹھی کوزمین پرڈالنے کاحکم دیاگیا،اورتب وہ لاٹھی بڑالہراتاہواسانپ بن گئی، اورجب اللہ کے حکم سے موسیٰ علیہ السلام نے اس سانپ کواپنے ہاتھ سے پکڑاتواب وہ سانپ دوبارہ لاٹھی بن گیا۔ اوراسی طرح دوسری نشانی بھی دکھائی گئی کہ اپناہاتھ بغل میں ڈالنے کے بعدجب باہرنکالاتووہ خوب چمکنے لگا… اوراس کے بعداللہ کی طرف سے ارشادہوا: {لِنُرِیَکَ مِن آیَاتِنَا الکُبرَیٰ} (۲) یعنی ’’اے موسیٰ ہم آپ کواپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھاناچاہتے ہیں‘‘اورپھریہ حکم دیاگیا:{اِذھَب اِلَیٰ فِرعَونَ اِنَّہٗ طَغَیٰ} (۳) یعنی’’اب آپ فرعون کی طرف جایئے ٗ اس نے توبڑی سرکشی مچارکھی ہے‘‘۔ مقصدیہ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کوایک بہت بڑی ذمہ داری سونپے جانے سے قبل اللہ کی قدرت کامشاہدہ کرایاگیاتاکہ اس طرح اللہ پران کایقین وایمان مزیدپختہ ہوجائے اوراس فریضے کی راہ میں آئندہ آنے والی مشکلات کاسامناکرتے وقت کسی قسم کی گھبراہٹ یاترددکاشکارہونے کی بجائے وہ خوب ثابت قدم رہیں۔ بعینہٖ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں سفرِ معراج کے تذکرہ کے ضمن میں ارشادہے: {لِنُرِیَہٗ مِن آیَاتِنَا}(۴)یعنی’’تاکہ ہم اسے اپنی قدرت کے کچھ نمونے دکھادیں‘‘اس آیت میں خوداللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے اس یادگارسفرکامقصدیہی بیان ------------------------------ (۱) طٰہٰ[۲۳] (۲) طٰہٰ[۲۴] (۳)النازعات[۱۷] (۴)الاسراء/بنی اسرائیل[۱]