سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
اسی کیفیت میں آپﷺکی عمرمبارک جب چالیس سال ہوگئی توایک روزجب آپؐحسبِ معمول غارِحراء میں ذکروفکراورعبادت میں مشغول تھے کہ اچانک وہاں کوئی اجنبی شخص نمودارہواجوکہ درحقیقت امین الوحی حضرت جبریل علیہ السلام تھے۔ اس نوواردیعنی جبریل امین نے آپؐ کے قریب آکرکہا: اِقْرَأ یعنی :’’پڑھو‘‘ ۔آپؐ نے جواب دیا: مَا أنَا بِقَارِیٔ یعنی : ’’میں توپڑھاہواہی نہیں ہوں‘‘۔ اس پرجبریل نے دوبارہ کہا: اِقرَأ یعنی:’’پڑھو‘‘اورآپؐنے وہی جواب دیا: مَا أنَا بِقَارِیٔ یعنی : ’’میں توپڑھاہواہی نہیں ہوں‘‘۔ تب جبریل علیہ السلام نے آپؐ کوگلے سے لگاکرقدرے بھینچا، اور پھرچھوڑدیا،اس کے بعدتیسری بارکہا: {اِقرَأ بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ ، خَلَقَ الاِنسَانَ مِن عَلَقٍ، اِقرَأ وَرَبُّکَ الأکرَمُ، الَّذِي عَلَّمَ بَالقَلَمِ، عَلَّمَ الاِنسَانَ مَالَم یَعلَم} یعنی:’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیداکیا،جس نے انسان کوجمے ہوئے خون سے پیداکیا،پڑھ، اورتیرارب بڑامہربان ہے،جس نے قلم کے ذریعے سکھایا، جس نے انسان کووہ سکھایاجووہ نہیں جانتاتھا‘‘۔ یہ تھی سب سے پہلی وحی جوخالقِ کائنات کی طرف سے اپنے آخری نبی ﷺکی جانب نازل کی گئی ،تمام آسمانی کتابوں میں سب سے آخری وافضل کتاب کایہ سب سے پہلے نازل ہونے والاحصہ تھا، جس میں انسان کواس کے خالق ومالک کی طرف سے تحصیلِ علم کاحکم دیاگیا۔اس سے دینِ اسلام میں علم کی اہمیت واضح ہوتی ہے،اوریہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ دینِ اسلام علم ومعرفت اورحکمت وبصیرت کادین ہے۔ ------------------------------ (۱) سورۃ العلق [۱۔۵]