سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
اس شادی کے محض چندہفتے بعدعبداللہ اپنے والدکی تجارت کے سلسلے میں ملکِ شام کی طرف جانے والے قافلے کے ہمراہ روانہ ہوگئے،جبکہ اس دوران ان کی اہلیہ محترمہ یعنی ’’آمنہ‘‘’’امانت دارِنورِمحمدی‘‘بن چکی تھیں…! ملکِ شام سے واپسی کے موقع پرراستے میں عبداللہ بیمارپڑگئے،اوریہ قافلہ جب مدینہ کی حدودمیں پہنچاتوان کی طبیعت اس قدرناسازہوگئی کہ وہ مزیدسفرجاری رکھنے کے قابل نہ رہے اورمدینہ میں ہی رک گئے(۱)جبکہ قافلہ انہیں چھوڑکرمنزل کی جانب روانہ ہوگیا… مکہ پہنچ کرقافلے والوں نے عبدالمطلب کوجب بیٹے کی بیماری کی اطلاع دی تووہ انتہائی پریشان اورفکرمندہوگئے اورفوراًاپنے بڑے بیٹے حارث کوعبداللہ کی خبرگیری کیلئے مدینہ کی طرف روانہ کیا،حارث انتہائی سرعت کے ساتھ جب یہ طویل سفرطے کرکے مدینہ پہنچے تومعلوم ہواکہ عبداللہ کی وفات ہوچکی ہے اورانہیں مدینہ کے محلہ ’’دارالنابغہ‘‘میں دفن کیاجاچکاہے… اس پرحارث انتہائی رنجیدہ وافسردہ ہوا،اورفوراًہی مکہ کی طرف واپس لوٹ گیا،اور مکہ واپس پہنچنے پراس نے اپنے والدعبدالمطلب کویہ افسوسناک خبرسنائی …! انتقال کے وقت جناب عبداللہ کی عمرصرف پچیس برس تھی،جبکہ سیدہ آمنہ کی عمراس سے بھی کم تھی۔یوں سیدہ آمنہ اپنے محبوب شوہرکی امانت لئے ہوئے ٗ عین عالمِ شباب میںبیوہ ہوگئیں…جبکہ وہ امانت ابھی اس دنیامیں آئی بھی نہیں تھی۔ ------------------------------ (۱) مدینہ میں عبداللہ نے خاندانِ ’’بنونجار‘‘میں قیام کیاتھا،جوکہ ان کی دادی کاخاندان تھا،بعدمیںہجرتِ مدینہ کے موقع پر رسول اللہﷺ کی اونٹنی اللہ کے حکم سے جب مسلسل چلتی چلی جارہی تھی ،آخر’’بنونجار‘‘کے اسی محلے میں پہنچ کرخودبخودرک گئی تھی…آپؐنے وہیں قیام فرمایاتھااورمسجدنبوی بھی اسی مقام پرتعمیرکی گئی تھی، آپؐکی مدینہ آمدکے موقع پربنونجارہی کی بچیاں نہایت والہانہ اندازمیں خیرمقدمی اشعارپڑھ رہی تھیں ’’طلع البدرعلینا…‘‘