سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
ضرورت نہیں تھی۔ ہجرت کے بعداب اس نئی جگہ پرہرمسلمان کایہ فرض تھاکہ وہ اس نئے معاشرے کی تشکیل کیلئے محنت وکوشش اورفکروجستجوکرے،ہرکوئی اپنی ذمہ داری نبھائے اوراپنافرض پورا کرے…اوراس سلسلے میں ان سب کے متفقہ قائداوررہبرورہنماخودرسول اللہﷺ تھے۔ مکی دورمیں تمام مسلمان اگرچہ عقیدہ وایمان کے معاملے میں یقیناباہم متفق ومتحدتھے،لیکن ان کاکوئی مستقل معاشرہ نہیں تھا،وہ سب وہاں متفرق اورمنتشرتھے،الگ الگ محلوں اوربستیوں میں… کسی ایک محلے میں اکادکامسلمان… دوردرازکسی دوسرے محلے میں دوچارمسلمان… لہٰذامکی دورمیں مسلمانوں کی کوئی مستقل معاشرتی زندگی نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مکی دورمیں قرآن کریم کی جوسورتیں یاجوآیات نازل ہوئیں ان میں صرف ایسی بنیادی تعلیمات تھیں کہ جن پرہرکوئی اپنی اپنی جگہ انفرادی طورپرعمل کرسکتاتھا، ان میں اجتماعی یامعاشرتی مسائل کاکوئی تذکرہ نہیں تھا۔ لیکن اب یہاں مدینہ میں وہ سب یکجاتھے،آزادتھے،مکمل خودمختاربھی تھے،اب اس نئے اورآزادومکمل خودمختارمعاشرے کیلئے نئے قانون ٗ نئے آئین ٗ اورنئے دستورکی ضرورت تھی،کیونکہ اب توگویاباقاعدہ ایک نئی مملکت وجودمیں آچکی تھی…اس نوزائیدہ مملکت کوکس طرح چلاناہے؟یہاں قواعدوقوانین کیاہوں گے؟ معیشت اورروزگارکے مسائل کاحل کیا ہوگا؟اندرونی وبیرونی خطرات سے کس طرح نپٹاجائے گا؟جغرافیائی ونظریاتی سرحدوں کی حفاظت کاکیاانتظام ہوگا؟ نیز اجتماعی ومعاشرتی مسائل کاحل … تجارت ٗ سیاست ٗ معیشت واقتصاد سے متعلق امور… وغیرہ… یقینایہ سب کچھ بہت بڑاچیلنج تھا۔