سے کام نہیں چل سکتا۔ کیونکہ آیت شریفہ لفظ خاتم النبیین ہی ہے۔ خاتم المرسلین نہیں ہے۔ جبھی تو جمہوراسلام اس کے قائل ہیں کہ چونکہ آیت میں لفظ خاتم النبیین ہے۔اس لئے کوئی نیا نبی صاحب شریعت یا غیرصاحب شریعت ہرگز نہیں آسکتا۔ جو اس کے خلاف عقیدہ رکھے وہ قطعی کافر ہے۔
پھر یہ شعر بھی مرزا قادیانی ہی کا ہے۔ چنانچہ سراج منیر (ص ح، خزائن ج۱۲ ص۹۵)میں فرماتے ہیں:
ہست روز خیر الرسل خیر الانام
ہر نبوت کا بروشد اختتام
یہ ہیں مرزا قادیانی کے اقوال ختم نبوت کے متعلق۔ ایک عقلمند آدمی حیران ہوگا کہ جو شخص ختم نبوت کے منکر اور مدعی نبوت کو کاذب اورکافر کہہ رہا ہے،پھر وہ خود ہی ختم نبوت کا منکر اور مدعی نبوت ہو یہ عجیب بات ہے۔آخر معاملہ کیاہے۔اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے اورکہتے ہیں کہ مرزا قادیانی کے اقوال دعوے نبوت سے پہلے کے ہیں۔اب آپ کوخدا کی طرف سے الہام ہوا کہ تو نبی ہے تو مرزا قادیانی نے اپنے عقیدہ کو بدل دیا۔
لیکن پھر سوال پیداہوگا کہ دعویٰ نبوت سے پہلے مرزا قادیانی نے قرآن شریف اور حدیث شریف یعنی کلام خدا اور کلام رسول کو صحیح سمجھا تھا یا غلط۔اگر صحیح سمجھا تھا تو پھر دعویٰ نبوت کیوں کیا اوراگرغلط سمجھاتھا تو کلام خدا اور کلام رسول کو غلط سمجھنے والا شخص نبوت کے قابل ہی نہیں۔ بھلا جو شخص قرآن کا اور رسول کا متبع ہوکر قرآن اورحدیث کو سمجھے ہی گا نہیں وہ تبلیغ دین کیا خاک کرے گا۔ دوسرے یہ رسالت کا مسئلہ عقائد کا مسئلہ ہے۔ اس میں تنسیخ بھی جائز اعمال توتنسیخ سے بدل جاتے ہیں۔ مگر عقائد نہیں بدلا کرتے۔ تیسرے یہ کہ نبی اپنی ذات سے معصوم ہوتا ہے۔ وہ اس قسم کی غلطی کر ہی نہیں سکتا۔اس کو توخدا محفوظ رکھتا ہے کہ یہ ایسی بات نہ کہے جو کل کو غلط ثابت ہو۔ ورنہ لوگ اس کو نہ صادق کہیں گے نہ امین اور نہ وہ معصوم رہے گا اورنبوت کی یہی صفات ہیں۔ پس ایسا شخص جو نہ معصوم ہو نہ صادق ہو اورنہ امین ہو۔ وہ نبی ہو ہی نہیں سکتا۔لہٰذ امرزا قادیانی کی نبوت کی تغلیط کے لئے یہ کافی ہے۔
ایک بات مسلمان کویاد رکھنی چاہئے کہ کسی مسلمان کو یہ نہ دیکھنا چاہئے کہ اسلام کے متعلق مرزا قادیانی کیا کہتے ہیں۔ کیونکہ مرزا قادیانی کی سچائی ابھی خود محل نزاع ہے۔ پس جب تک مرزا قادیانی کی سچائی ثابت نہ ہو جائے اس وقت تک ان کی کوئی بات سچی نہیںمانی جاسکتی۔ اسلام کے متعلق ہمیشہ ہم کو یہ دیکھنا ہو گا کہ مرزا قادیانی سے پہلے تیرہ سو برس تک اسلام کیاتھا۔ ان