مسلمانوں کی توجہ فروعی مسائل میں الجھ جائے گی۔ان کے خیالات میں پراگندگی اورذہنوں میں انتشار پیدا ہو گا اورمرزائی ٹولہ آسانی کے ساتھ دجل فریب اور الحاد وزندقہ کی اشاعت کرنے کے علاوہ اپنے جھوٹے نبی کے جھوٹے الہامات وپیش گوئیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے اور سادہ لوح مسلمانوں کی دولت ایمانی پرڈاکہ ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھ سکیں گے۔ چنانچہ یہ ایک ناقابل انکار واقعہ ہے کہ یہ چالاک ومکار ٹولہ حصول مقصد کے لئے شروع ہی سے کم علم اور سادہ لوح مسلمانوں کو استعمال کرتاآرہا ہے۔
لہٰذاکوٹلی کے مرزائی بھی اسی اصول پر کاربند ہیں اور انجان مسلم عوام کو اپنے جال میں پھانسنے کیلئے جو کچھ کررہے ہیں وہ ارباب نظر سے پوشیدہ نہیں۔ اس غایت درجہ موقع پرست اور بے حد چالاک ٹولہ کا تازہ شکار کوٹلی کا بے چارہ ’’فضل الٰہی ‘‘ ہے۔ جو مرزائیاں کوٹلی کارشتہ دار اورمسلمانان کوٹلی کے نزدیک غیر دیانتدار ہونے کی پاداش میں راندئہ جماعت قرار پاچکا تھا۔ اس نمدہ بدھ کوخداجانے کون سے سبز باغ دکھا کر اسے ایک اخبار کا مالک ومدیر بنا دیا گیا ہے۔ لیکن مدیر صاحب کے ذاتی کردار اورقابلیت کا یہ عالم ہے کہ آپ کوٹلی کی انجمن اسلامیہ کے نام نہاد صدر کی حیثیت سے انجمن کے رجسٹرات نکاح خوانی کی فیس کے ہزاروں روپے کے علاوہ تعمیر مسجد فنڈ کا بہت ساروپیہ ہضم کر چکے ہیں اوراپنی اس شرمناک خیانت کی وجہ سے جماعت سے نکالے گئے ہیں اورشاید ہی درست طور پر اپنا نام لکھ سکتے ہوں۔ اخبار کے ادارئہ تحریر کے ایک اوررکن ابھی کل تک سڑکوں پر کھڑے ہوکر سانڈے کا تیل بیچا کرتے تھے۔اب قادیانی نبی کی طرح پہلی چھلانگ میں حکیم، ایڈیٹر اورنہ جانے کیاکچھ بن چکے ہیں اور کیا کچھ بناچاہتے ہیں۔ مالک ومدیر نوائے کشمیر فضل الٰہی کے ذ مہ قومی فنڈ سے تقریباً۱۰ہزار روپیہ ہے۔گزشتہ ستمبر میں جب قوم نے اس رقم کامطالبہ کیا تو صاف مکر گئے۔ مسلمان عوام سوائے اس کے سردست اور کرہی کیاسکتے تھے کہ انہیں غبن اورقومی غداری کے الزام سے خارج از جماعت کر کے حق تعالیٰ کے فیصلہ کا انتظار کریں۔ جو ایسے بے وفایان ملت اورغداران قوم کو بالآخر ذلیل ورسوا کرتاہے۔
منافق اعظم
لیکن یہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی اگر کچھ لوگ مرزائیوں کے ہتھکنڈوں سے پورے طور پر خبردار نہ ہوتے تو پھر ہم کھلے لفظوں میں انہیں بتاتے کہ کوٹلی کے مرزائیوں کا پیراستاد اور سب سے زیادہ فتنہ پرداز مرزائی میر عالم درزی جسے منافق اعظم لکھنا زیادہ موزوںہوگا اور ابھی کل تک جو کپڑے ٹانکنا بھی اچھی طرح نہ جانتا تھا اور نان شبینہ تک کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا