اوراصولی لحاظ سے مرزائیوں کا یہ اعلان صحیح ہے ۔ان کا حق ہے کہ وہ ہر امر میں مسلمانوں سے علیحدہ رہیں۔ کیونکہ ان کی نبوت علیحدہ ہے۔ اندریں صورت کیا وجہ ہے کہ عیسائی وغیرہ تو اقلیت میں ہوں اورمرزائیوں کو مسلمانوں میں شامل کیاجائے۔
گول میز کانفرنس شملہ میں مسٹر جناح نے تقسیم ملک کی بڑی وجہ یہ پیش کی تھی کہ گائے ایک قوم کا خدا ہے اوردوسری قوم کی خوراک ہے۔ لہٰذا یہ دونوں قومیں اکٹھی کسی طرح رہ سکتی ہیں؟ اس پر ملک کے دوٹکڑے ہوگئے۔ اب اس اصول کو یہاں لیجئے۔نبوت کمال بشریت کا آخری درجہ ہے۔نبی سے بڑھ کر خدا کا کوئی مقرب نہیں ۔ جب ایک قوم کے نبی کو دوسری قوم دجال وکذاب کہے تو اس کے اجتماع کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اس لئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ عیسائیوں وغیرہ کی طرح مرزائیوں کو بھی اقلیت قرار دیا جائے۔
چندباتیں یہاں اورقابل توجہ ہیں
اوّل! یہ کہ دوسری جماعتوں کے آپس میں خواہ کتنے اورکیسے ہی اختلافات ہوں۔ مگر ان میں سے کوئی بھی اسلامی حکومت پر کفر کی حکومت کو ترجیح نہیں دیتا۔ بخلاف اس کے مرزائیت یہ چاہتی ہے کہ کفر کی حکومت برقرار رہے۔چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۷۰)میں لکھتے ہیں :’’میں اپنے کام کو نہ مکہ میں اچھی طرح کر سکتا ہوں ۔نہ مدینہ میں۔ نہ روم میں ۔ نہ شام میں۔ نہ ایران میں۔ نہ کابل میں۔مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لئے دعا کرتاہوں۔ ‘‘
الفضل ۱۳؍ستمبر۱۹۱۴ء میں ہے:’’ سنوانگریز کی سلطنت تمہارے لئے ایک رحمت ہے۔تمہارے لئے ایک برکت ہے اور اس خدا کی طرف سے وہ سپر ہے ۔پس تم دل و جان سے اس سپر کی قدر کرو اور ہمارے مخالف جو مسلمان ہیں۔ ہزارہا درجہ ان سے انگریز بہتر ہیں۔‘‘
اسی پرچہ میں آگے چل کر لکھا ہے:’’سچے احمدی بدوں کسی خوشامد اور چاپلوسی کے دل سے یقین کرتے ہیں کہ برٹش گورنمنٹ ان کے لئے فضل ایزدی اورسایہ رحمت ہے اوراس کی ہستی کو وہ اپنی ہستی خیال کرتے ہیں۔‘‘
ان عبارات کا مطلب واضح ہے کہ مرزائیت کے لئے کسی مملکت اسلامیہ میں جگہ نہیں۔ اسی لئے کہیںکفر کی حکومت کو سایہ رحمت ایزدی بتلایاجارہا ہے اورکہیں اس کے اقبال اور ترقی کے لئے دعائیں ہورہی ہیں۔ آخر یہ کیوں؟ یا تو اس لئے کہ نئی نبوت کا اسلام میں وجود ہی نہیں۔ یا پھر اس لئے کہ اس میں اسلامی معاشرے کی تخریب قطع برید اور ملک میں انتشار و بدامنی