مختلف حیلوں اوربہانوں سے مسلمانوں کو تعلیمات اسلامی سے منحرف کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔زرخرید علمائےسوء سے اپنے حق میں پرچار کرایا۔ غلط سلط عقائد کی ترویج وتشہیر کی کوشش کی۔لیکن اسے اس مقصد میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی۔ پادریوں اورزرپرستوں کی کوششیں علمائے حق اورصوفیاء مشائخ کرام کے مواعظ حسنہ کی وجہ سے پروان نہ چڑھ سکیں۔اسی اثناء میں مسلمانان ہند نے استخلاص وطن کے لئے ۱۹۵۷ء میں ایک مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ جسے تاریخ کی کتابوں میں غدر کے نام سے موسوم کیاگیا۔ چنانچہ انگریز کو یقین ہو گیا کہ جب تک مسلمان کا قلب جذبہ جہاد اسلامی سے معمور اورنشہ وحدت ورسالت سے مخمور ہے۔اس کاذہنی طور پر غلام بننا اورغیر اسلامی حکومت کو دل سے تسلیم کرنا ناممکن ہے۔ چنانچہ فرنگی نبض شناسوں نے کامل سوچ بچار اورگہرے غوروخوص کے بعد بیسویں صدی کے اوائل میں ایک ایسا آدمی تلاش کرلیا جو فکر معاش میں ٹامک ٹوئیے مار رہا تھا اوراپنے کتابی علم کی بناء پر ان کے ڈھب کا تھا۔ یہ شخص مرزا غلام احمد قادیانی تھا۔جو وکالت کے امتحان میں ناکام ہونے کی وجہ سے ان دنوں بے حد دل برداشتہ ہورہا تھا۔ علاقہ کے انگریز حکام اور پادریوں کے توسط سے معاملہ طے ہوا اورجلد ہی خدایان فرنگ کے اشارہ سے مرزائے قادیان نے دعوے نبوت کی ہانک لگا دی اورانگریز کی ساختہ پرداختہ نبوت پنجاب کے اس گم نام قصبے میں فروغ پانے لگی۔
مدعی نبوت کے دعاوی
مرزاغلام احمد قادیانی نے جہاں نبی، مسیح موعود ،مہدی موعود ،کرشن اور جانے کیا کیا ہونے کے دعوے کئے وہاں خدائی دعوے کرنے میں بھی اس فرعون بے سامان نے جھجھک محسوس نہ کی۔جہاد کوقطعاً حرام قرار دے دیا اوراپنی نبوت سے انکار کرنے والے تمام مسلمانوں کو بیک جنبش قلم کافر،مرتد، حرامزادے اوراسی قسم کے الفاظ سے یاد کر کے ان پر ایک ہزار بار لعنت بھیجی۔ زناء کو بڑے منطقی دلائل سے جائز قرار دیا اوراسلامی معتقدات کا نہایت دلیری سے مضحکہ اڑایا اور ایک ایسے ٹولہ کی بنیادڈال دی جن کے اعمال واقوال حسب ذیل سطور میں رقم ہیں۔
امت مرزائیہ کے عقائد
مرزائی کسی دوسرے مسلمان کا جنازہ نہیں پڑھتے۔حتیٰ کہ معصوم مسلمان بچوں تک کے جنازہ سے اجتناب کرتے ہیں۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کوکافر کہتے ہیں۔غیر مرزائی کو اپنی لڑکی کا رشتہ نہیں دیتے۔مسلمان امام کی اقتداء میں نما زنہیں پڑھتے۔ حضرت قائداعظمؒ کے جنازہ میں اس