M
ضروری گزارش
اس رسالہ کا مضمون قریباً مارچ۱۹۵۳ء کا لکھا ہوا ہے ۔ جبکہ تحریک ’’راست اقدام‘‘ زوروں پر تھی۔ چنانچہ قارئین کرام کو اس مضمون کے پڑھنے سے معلوم ہو جائے گا ۔انشاء اﷲ چند درچند عوارض کے باعث اس کی اشاعت میں تاخیر ہوتی گئی ۔چونکہ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے۔ اس کی اہمیت اور افادیت کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ اس لئے اب بھی اس کی اشاعت اتنی ہی ضروری ہے ،جتنی کہ پہلے تھی۔
اس مختصر مضمون میں مسئلہ ختم نبوت اورلفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنے پر بھی معقول بحث کی گئی ہے۔ اخیر میں مسلمان اورمرتد کی تعریف اور راعی ورعیت کے متعلقہ چند مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
مرزائیت کے متعلق مسلمانوں کے متفقہ مطالبات کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لئے یہ مضمون انشاء اﷲ مشعل راہ ہوگا۔ واﷲ الموفق! عبداﷲ امرتسری روپڑی ؒ
مسئلہ ختم نبوت اورموجودہ تحریک
حکومت پاکستان کا اس کے متعلق نظریہ
ہم نہ احراری ہیں۔ نہ حکومت کے آدمی ہیں۔ ہماری حیثیت یہاں ایک ہمدرد عالم یا مفتی خیر خواہ کی ہے۔ ہمارے معمول میں یہ چیز داخل ہے کہ حسب طاقت الجھے ہوئے مسائل کو سلجھائیں اوران میں غلط فہمیاں دور کرتے ہوئے صحیح مسلک پرروشنی ڈالیں :
اگربینی کہ نابینا وچاہ است
اگر خاموش بنشینی گناہ است
موجودہ تحریک (ڈائریکٹ ایکشن یاراست اقدام) کے متعلق حکومت کے دو نظریے ہیں۔
اوّل! یہ کہ موجودہ تحریک کو ختم نبوت سے کوئی تعلق نہیں۔کیونکہ مسئلہ ختم نبوت خالص مذہبی چیز ہے اورموجودہ تحریک سیاسی۔
دوم! یہ کہ موجودہ تحریک خاص جماعت احرار کی اٹھائی ہوئی ہے۔ جس کو مذہبی رنگ دے کر عوام کے جذبات کو مشتعل کیا گیاتاکہ اس ذریعہ سے اپنا سیاسی اقتدارقائم کریں۔ اس لئے بعض دوسری جماعتیں بھی اس میںشامل ہوگئیں۔ جن کامقصد یہی سیاسی اقتدار حاصل کرنا تھا۔