ختم نبوت کی نئی تفسیر
واقعہ یہ ہے کہ قادیانیوں کا مسلمانوں سے الگ ایک امت ہونا اس پوزیشن کا ایک لازمی منطقی نتیجہ ہے جو انہوں نے خود اختیار کی ہے۔ وہ اسباب ان کے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں۔ جو انہیں مسلمانوں سے کاٹ کر ایک جداگانہ ملت بنا دیتے ہیں۔
پہلی چیز جو انہیں مسلمانوں سے جدا کرتی ہے وہ ختم نبوت کی نئی تفسیر ہے جو انہوںنے مسلمانوں کی متفق علیہ تفسیر سے ہٹ کر اختیار کی ۔ساڑھے تیرہ سو سال سے تمام مسلمان بالاتفاق یہ مانتے رہے ہیں اورآج بھی یہی مانتے ہیں کہ سیدنا محمدﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اورآپؐ کے بعد اب کوئی نبی مبعوث ہونے والا نہیں ہے۔ ختم نبوت کے متعلق قرآن مجید کی تصریح کا یہی مطلب صحابہ کرامؓ نے بھی سمجھاتھا اوراسی لئے انہوں نے ہر اس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے حضورؐ کے بعد دعوائے نبوت کیا۔پھر یہی مطلب بعد کے ہر دور میں تمام مسلمان سمجھتے رہے جس کی بناء پر مسلمانوں نے اپنے درمیان کبھی کسی ایسے شخص کوبرداشت نہیں کیا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہو۔ لیکن قادیانی حضرات نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ’’خاتم النبیین ‘‘ کی یہ نرالی تفسیر کی کہ نبی کریمﷺ نبیوں کی مہر ہیں اوراس کا مطلب یہ بیان کیا کہ حضورﷺ کے بعد اب جو بھی نبی آئے گا اس کی نبوت آپؐ کی مہر تصدیق لگ کرمصدقہ ہوگی۔اس کے ثبوت میں قادیانی لٹریچر کی بکثرت عبارتوں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔مگر ہم صرف تین حوالوں پر اکتفا کرتے ہیں۔
’ خاتم النّبیین کے بارے میں حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے فرمایا کہ خاتم النّبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپؐ کی مہر کے بغیر کسی کی نبوت کی تصدیق نہیں ہوسکتی۔ جب مہر لگ جاتی ہے تو وہ کاغذ سند ہوجاتا ہے اور مصدقہ سمجھا جاتاہے۔اسی طرح آنحضرتﷺ کی مہر اورتصدیق جس نبوت پر نہ ہو وہ صحیح نہیں ہے۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ حصہ پنجم ص۲۹۰)
’’ہمیںاس سے انکار نہیں کہ رسول کریمﷺ خاتم النّبیین ہیں۔ مگر ختم کے معنی وہ نہیں جو ’’احسان‘ ‘کاسواد اعظم سمجھتا ہے اورجو رسول کریمﷺ کی شان اعلیٰ وارفع کے سراسر خلاف ہے کہ آپ نے نبوت کی نعمت عظمیٰ سے اپنی امت کو محروم کر دیا۔بلکہ یہ ہیں آپ نبیوں کی مہر ہیں۔ اب وہی نبی ہو گا جس کی آپؐ تصدیق کریں گے…انہی معنوں میں ہم رسول کریمؐ کو خاتم النبیین سمجھتے ہیں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲۲؍ستمبر۱۹۳۹ئ)
’’خاتم مہر کو کہتے ہیں ۔جب نبی کریمؐ مہر ہوئے تو اگر ان کی امت میںکسی قسم کا نبی نہیں ہو گا تو وہ مہر کس طرح ہوئے یا مہر کس پر لگے گی؟‘‘ (الفضل قادیان، مورخہ ۲۲؍مئی ۱۹۲۲ئ)