بہرصورت ان بزرگوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نئی نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔ جیسے مرزائیوں کا خیال ہے ۔اگر ہمت ہے توکوئی صریح ایسی عبارت دکھاؤ کہ جس میں انہوں نے خاتم النبیین کا یہ معنے کیا ہو کہ سرکار دوجہاںﷺ آئندہ نبیوں کی مہر ہیں اوراگر کسی نے ایسا کیا ہو ۔ تو اہل سنت نہیں ۔بلکہ گمراہ ہے۔ کیونکہ وہ قرآن وحدیث اورخیر قرون کے خلاف ہے۔
حضرت عائشہؓ اورمسئلہ ختم نبوت
اسی نمبر میں تکملہ مجمع البحار کے حوالہ سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ رسول اﷲؐ کو خاتم النبیین کہو اور یہ نہ کہو:’’لانبی بعدہ‘‘{آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں۔} اوراس کا مطلب یہ لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا۔اگر خاتم النبیین سے آئندہ نبیوں کی نفی ہوئی تو پھرحضرت عائشہ صدیقہؓ :’’لانبی بعدہ‘‘کہنے سے کیوں روکتیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اول توحضرت عائشہ صدیقہؓ کے اس قول کی سند کا ہی اعتبار نہیں۔ ایسے غیرمعتبر قول پر اتنے بڑے مسئلہ کی عمارت کھڑی کر نا کون سی عقل مندی ہے۔ دوم حضرت عائشہؓ کا اس:’’لانبی بعدہ‘‘سے روکنے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی طرف اشارہ ہے۔ نہ کہ نبی نبوت کا اجراء ۔چنانچہ تکملہ مجمع البحار میں اسی مقام میں اس کی تصریح کی ہے۔مگر مغالطہ دینا مرزائیوں کی فطرت ہے۔اس لئے تکملہ کی پوری عبارت نقل نہیں کی۔
البتہ پاکٹ بک مرزائیہ میں پوری عبارت نقل کی ہے ۔لیکن اس کامطلب غلط لیا ہے۔تکملہ کی پوری عبارت یہ ہے۔
’’قولوا انہ خاتم الانبیاء ولاتقولوا لا نبی بعدہ ھذا ناظر الی نزول عیسیٰ وھذا ایضاً لاینا فی حدیث لانبی بعدی لانہ اراد لانبی ینسخ شرعہ‘‘ (تکملہ ص۸۵)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ خاتم الانبیاء کہو اور لا نبی بعدہ ،یہ نہ کہو۔حضرت عائشہ صدیقہؓ کافرمان نزول عیسیٰ علیہ السلام کی بناء پر ہے اورنزول عیسیٰ علیہ السلام حدیث لانبی بعدی کے بھی خلاف نہیں ہے۔
کیونکہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا نبی آپؐ کے بعد نہیں ۔ جو آپؐ کی شریعت منسوخ کرے۔ چونکہ عیسیٰ علیہ السلام آپؐ کی شریعت کو منسوخ نہیںکریں گے۔بلکہ اس کو جاری کریں گے۔اس لئے نزول عیسیٰ اس حدیث کے خلاف نہیں اور اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ نیانبی صاحب شریعت نہ ہو۔ وہ آسکتا ہے۔