کردی۔وہ غالباً اگست ۱۹۷۴ء کی کوئی تاریخ تھی۔ لیکن بعد میں یہ تاریخ بدل دی گئی اور۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء فیصلہ کی آخری تاریخ مقررکی گئی۔
علمائ،طلباء اورعوام نے جو عظیم جدوجہد کی۔اس کے نتیجہ میں اراکین قومی اسمبلی بھٹو صاحب سمیت اس مسئلہ کوعامۃ المسلمین کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کوتیارہوگئے۔
اسمبلی کی کارروائی
مسئلہ ۳۰؍جون ۱۹۷۴ء کو دو قراردادوں کی شکل میںاسمبلی میں پیش ہوا۔ایک قرارداد عبدالحفیظ پیرزادہ نے پیش کی۔ جس کاخلاصہ یہ تھاکہ نبی کریمﷺ کی خاتمیت پر جو یقین نہیں رکھتا اور ان کے بعد کسی دوسرے نبی یامصلح تصور کرتا ہے۔ان کی حیثیت کاتعین کیا جائے۔
دوسری قرارداد مولاناشاہ احمدنورانی ممبرقومی اسمبلی وپارلیمانی لیڈر جمعیت علمائے پاکستان جنرل سیکرٹری متحدہ حزب اختلاف قومی اسمبلی وصدر جمعیت علمائے پاکستان اورصدر ورلڈ اسلامک مشن نے حزب اختلاف کے ۲۲افراد کے دستخط سے جو بعد میں ۳۷کی تعداد ہوگئی ،پیش کی۔ اس قرارداد پرنیشنل عوامی پارٹی کے افراد نے بھی دستخط کئے۔
قرارداد کامتن
ہرگاہ کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قادیان کے مرزاغلام احمد نے آخری نبی حضرت محمدﷺ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ نیز ہر گاہ کہ نبی ہونے کے اس جھوٹے اعلان میں بہت سی قرانی آیات کوجھٹلانے اورجہاد کو ختم کرنے کی اس کی کوششیں ،اسلام کے بڑے بڑے احکامات کے خلاف غداری تھیں۔ نیز ہرگاہ کہ وہ سامراج کی پیداوار تھا اور اس کا واحد مقصد مسلمانوں کے اتحاد کوتباہ کرنااوراسلام کوجھٹلاناتھا۔نیز ہرگاہ کہ پوری امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار چاہے وہ مرزاغلام احمد مذکور کو نبوت کا یقین رکھتے ہوں یا اسے اپنا مصلح یا مذہبی رہنماء کسی صورت میں بھی گردانتے ہوں ،دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔نیز ہر گاہ کہ ان کے پیروکار چاہے انہیں کوئی بھی نام دیاجائے۔ مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر اور اسلام کا ایک فرقہ ہونے کا بہانہ کر کے اندرونی اوربیرونی طور پرتخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
نیز ہرگاہ کہ عالمی مسلم تنظیموں کی ایک کانفرنس میں جو مکہ مکرمہ کے مقدس شہر میں ۶اور ۱۰ ؍اپریل ۱۹۷۴ء کے درمیان منعقد ہوئی اورجس میں دنیا بھر کے تمام حصوں سے ۱۴۰ مسلمان