دینا ناجائز خیال کرتے ہیں۔ گویا مسلمانوں کے مقابلے میں اپنے کووہی پوزیشن دیتے ہیں جو اسلام نے اہل کتاب کو دی ہے۔
۱… ’’حضرت مسیح موعود نے اس احمدی پر سخت ناراضگی کااظہارکیا ہے۔ جو اپنی لڑکی غیر احمدی کو دے۔ آپ سے ایک شخص نے بار بار پوچھا اورکئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا۔ لیکن آپ نے یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو۔لیکن غیر احمدیوں کو نہ دو۔ آپ کی وفات کے بعد اس نے غیر احمدیوں کو لڑکی دے دی ۔ تو حضرت خلیفہ اول حکیم نورالدین نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹا دیا اور جماعت سے خارج کردیا اوراپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی۔ باوجودیکہ وہ بار بار توبہ کرتارہا۔‘‘ (انوارخلافت ص۹۳،۹۴)
۲… ’’حضرت مسیح موعود کا حکم اورزبردست حکم ہے کہ کوئی احمدی غیر احمدی کو اپنی لڑکی نہ دے۔اس کی تعمیل کرنا بھی ہر احمدی پر فرض ہے۔‘‘ (برکات خلافت ص۷۵)
۳… ’’پانچویں بات جو کہ اس زمانہ میں ہماری جماعت کے لئے نہایت ضروری ہے ، وہ غیر احمدی کو رشتہ نہ دینا ہے۔جو شخص غیر احمدی کو رشتہ دیتا ہے،وہ یقیناحضرت مسیح موعود کونہیںسمجھتا اور نہ یہ جانتا ہے کہ احمدیت کیا چیز ہے۔ کیا کوئی غیر احمدیوں میں ایسا بے دین ہے جو کسی ہندو یا عیسائی کو اپنی لڑکی دے دے؟ان لوگوں کو تم کافرکہتے ہو۔ مگر اس معاملہ میں وہ تم سے اچھے رہے کہ کافر ہوکر بھی کسی کافر کو لڑکی نہیں دیتے۔ مگر تم احمدی کہلا کر کافر کو دے دیتے ہو۔‘‘
(ملائکتہ اﷲ ص۴۶)
’’ہم تو دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے غیر احمدیوں کے ساتھ صرف وہی سلوک جائز رکھا ہے ،جو نبی کریم نے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ غیر احمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیاگیا۔ ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا۔ دینی تعلقات کا سب سے بڑاذریعہ عبادت کا اکٹھاہونا ہے اوردنیوی تعلقات کا بھاری ذریعہ رشتہ ناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لئے حرام قرار دیئے گئے۔اگر کہو کہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے تو میں کہتا ہوں کہ نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۶۹)
مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی ممانعت
اوپر جو کچھ لکھا گیا،اس کا منطقی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ مرزاغلام احمد کے پیروکار مسلمانوں کے ساتھ عبادت میں بھی شریک نہ ہوں۔ چنانچہ ذیل کی عبارت سے ثابت ہوجائے گا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ نہ نماز میں شریک ہو سکتے ہیں اورنہ کسی مسلمان کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں۔