ہو نبوۃ فی الاسلام ص۷۵،۷۶) خلاصہ یہ کہ مرزائی لاہوری ہوں یا قادیانی۔ دونوںکافر ہیں۔
حکومت پاکستان کا نظریہ
اب حکومت پاکستان کے نظریوں پرغور فرمائیے:
پہلا نظریہ: کہ موجودہ تحریک کو مسئلہ ختم نبوت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان اسلامی حکومت ہے یا غیر اسلامی۔ اگر غیر اسلامی ہے تو پھر بھارت اور پاکستان ایک ہی شے ہے۔ تقسیم ملک بے کار ہو گئی اور لاکھوں قربانیاں برباد ہو گئیں۔ ایساکہنے کی جرأت تو کون کرے گااو ر اگر اسلامی حکومت ہے ۔جیسا کہ پاکستان کو اسلامی حکومتوں میں سب سے بڑی حکومت کہا جاتا ہے۔تو پھر اسلامی حکومت کی تعریف اس پرصادق آنی چاہئے ۔چونکہ آپ اس کوجمہوری حکومت کہتے ہیں۔ یعنی اکثر افراد کی حکومت جو رائے عامہ کے تحت ہو۔اس کے لئے کم از کم کلیدی آسامیاں (جن میں مسلم غیر مسلم دونوں کی نمائندگی کے اختیارات ہوں) مسلمان ہونی چاہئیں۔ ورنہ حکومت اسلامی محض ایک فریب ہو گا۔جس کو مذہبی رنگ دیا گیا ہے۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ جب تک پاکستان میں اسلامی قانون رائج نہ ہو ۔اس کو اسلامی حکومت کہنا صرف ایک خوش فہمی ہے۔
یہ تو بالکل سطحی نظریہ ہے کہ کلیدی آسامیاں کافر ہوں اورحکومت اسلامی کہلائے۔ علم منطق کا مشہور مسئلہ ہے کہ نتیجہ ’’اخس ارذل ‘‘ کے تابع ہوتا ہے۔یعنی مرکب شے میں ایک چیز ناقص ہو تو ساری ناقص کہلاتی ہے۔ مثلاً پورے قرآن مجید پر ایمان لاکرصرف ایک آیت کے ساتھ کفر ہو تو وہ کافر کہلائے گا۔اسی طرح تمام انبیاء علیہ السلام کو مان کر ایک کا انکار کرے تو وہ کافر ہے۔ یہودی عیسائی اسی لئے کافر ہیں۔ پس حکومت پاکستان کافرض ہے کہ وہ اپنے نام اورمقام کالحاظ کرتے ہوئے ظفر اﷲ کو وزارت خارجہ سے سبکدوش کردے۔
دوسرا نظریہ: کہ یہ تحریک دراصل احرار کی ہے۔ اس پر سوال یہ ہے کہ جب مسئلہ ختم نبوت پوری ملت اسلامیہ کامشترکہ ہے اوراسی مسئلہ کا تقاضا ہے کہ وزارت خارجہ تبدیل ہو اور مرزائیت اقلیت قرار پائے۔ تو پھر اس میں احراریوں کی کیا خصوصیت رہی؟ اس لئے تمام جماعتیں اس میں شریک ہو گئیں۔ یہاں اقتدارغیر اقتدار کا سوال نہیں۔ بلکہ پاکستان کے متعلق حکومت اسلامی یا غیر اسلامی کا مسئلہ پیش نظر ہے۔ جس پر غور کرنا حکومت پاکستان کا اولین فرض ہے تاکہ اپنے اسلامی ہونے کا ثبوت پیش کر سکے۔
خلاصہ یہ کہ مسئلہ ختم نبوت بے شک مذہبی چیز ہے اورموجودہ تحریک سیاسی ۔لیکن جب