دعوئے نبوت کے لازمی نتائج
نبوت کے دعوے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اس نبوت پر ایمان نہ لائے وہ کافر قرار دیا جائے۔چنانچہ قادیانیوں نے یہی کیا۔وہ ان تمام مسلمانوں کو اپنی تحریرو تقریر میں علانیہ کافر قرار دیتے ہیں جو مرزاغلام احمدقادیانی کو نبی نہیں مانتے۔ اس کے ثبوت میں ان کی چند صریح عبارتیں یہ ہیں۔
’’کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے،خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا،وہ کافر اوردائرئہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘ (آئینہ صداقت ص۳۵)
’’ہرایک ایسا شخص جو موسیٰ کومانتا ہے مگر عیسیٰ کونہیں مانتا یاعیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا،یامحمد کومانتا ہے مگر مسیح موعود کو نہیں مانتا ،وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اوردائرئہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ ( کلمتہ الفصل ص۱۱۰)
’’ہم چونکہ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں اورغیر احمدی آپ کو نبی نہیں مانتے۔اس لئے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق کہ کسی نبی کاانکار بھی کفر ہے۔غیر احمدی کافر ہیں۔‘‘
(بیان مرزا بشیر الدین محمود احمدباجلاس سب جج عدالت گورداسپور،مندرجہ اخبار الفضل مورخہ ۲۶،۲۹؍جون ۱۹۲۲ئ)
قادیانیوں کا مسلمانوں سے جدا مذہب
وہ صرف یہی نہیں کہتے کہ مسلمانوں سے ان کااختلاف محض مرزا قادیانی کی نبوت کے معاملے میں ہے،بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہماراخدا، ہمارااسلام، ہماراقرآن، ہماری نماز، ہماراروزہ، غرض ہماری ہر چیز مسلمانوں سے جدا ہے۔۲۱اگست ۱۹۱۷ء کے الفضل میں خلیفہ صاحب کی ایک تقریر طلباء کو نصائح کے عنوان سے شائع ہوئی تھی۔ جس میں انہوں نے اپنی جماعت کے طلبہ کوخطاب کرتے ہوئے یہ بتایا تھا کہ احمدیوں اورغیر احمدیوں کے درمیان کیااختلاف ہے۔اس میں وہ فرماتے ہیں:
’’ورنہ حضرت مسیح موعود نے تو فرمایا ہے کہ ان کا (یعنی مسلمانوں کا) اسلام اور ہے اور ہمارا اور،ان کا خدا اورہے اورہمارا اور، ان کا حج اور ہمارا اور ہے اوراسی طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے۔‘‘
۳۰جولائی۱۹۳۱ء کے الفضل میں خلیفہ کی ایک اورتقریر شائع ہوتی ہے جس میں وہ اس بحث کاذکر کرتے ہیں جو مرزاقادیانی کی زندگی میں اس مسئلے پر چھڑ گئی تھی کہ احمدیوں کو اپنا ایک