وہ مسلمانوں سے کٹ کر بس الگ تھلگ ہوبیٹھے ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے چند چھوٹی چھوٹی چٹانیں ہوں جو سرحد پر پڑی ہوں ۔اس لئے ان کے وجود پرصبر کیاجا سکتاہے۔ لیکن قادیانی مسلمانوں کے اندر مسلمان بن کر گھستے ہیں۔ اسلام کے نام سے اپنے مسلک کی اشاعت کرتے ہیں۔ مناظرہ بازی اورجارحانہ تبلیغ کرتے پھرتے ہیں اورمسلم معاشرے کے اجزاء کو توڑ پھوڑ کر اپنے جداگانہ معاشرے میں شامل کرنے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں۔ان کی بدولت مسلم معاشرے میں اختلال وانتشار کا ایک مستقل فتنہ برپا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے معاملے میں ہمارے لئے وہ صبر ممکن نہیں ہے۔ جو دوسرے گروہوں کے معاملے میں کیاجاسکتا ہے۔
ان گروہوں کا مسئلہ ہمارے لئے صرف ایک دینیاتی مسئلہ ہے کہ آیا اپنے مخصوص عقائد کی بناء پر وہ اسلام کے پیرو سمجھے جا سکتے ہیں یا نہیں۔ اگر بالفرض وہ اسلام کے پیرو نہ بھی مانے جائیں تو جس جمود کی حالت میں وہ ہیں ۔اس کی وجہ سے ان کا مسلمانوں میں شامل رہناہمارے لئے نہ خطرہ ایمان ہے اور نہ کوئی معاشرتی ،معاشی یاسیاسی مسئلہ ہی پیدا کرتا ہے۔ لیکن مسلمانوں میں قادیانی مسلک کی مسلسل تبلیغ ایک طرف لاکھوں ناواقف دین مسلمانوں کے لئے ایمان کاخطرہ بنی ہوئی ہے۔ دوسری طرف جس خاندان میں بھی ان کی یہ تبلیغ کارگر ہو جاتی ہے۔وہاں فوراً ایک معاشرتی مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔کہیں شوہر اور بیوی میں جدائی پڑ رہی ہے۔کہیں باپ اوربیٹے ایک دوسرے سے کٹ رہے ہیں اورکہیں بھائی اوربھائی کے درمیان شادی وغم کی شرکت تک کے تعلقات منقطع ہورہے ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ قادیانیوں کی جتھ بندی سرکاری دفاتر میں، تجارت میں،صنعت میں،زراعت میں،غرض زندگی کے ہر میدان میں مسلمانوں کے خلاف نبرد آزما ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرتی مسئلے کے علاوہ اوردوسرے مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔
۳…قادیانیوں کے سیاسی عزائم
پھردوسرے گروہوں کے کوئی ایسے سیاسی رجحانات نہیں ہیں جو ہمارے لئے کسی حیثیت سے خطرناک ہوں اورہمیں مجبور کرتے ہوں کہ ہم فوراً ان کے مسائل کو حل کرنے کی فکر کریں۔ لیکن قادیانیوں کے اندر بعض ایسے خطرناک سیاسی رجحانات پائے جاتے ہیں جن سے کسی طرح آنکھیں بند نہیںکی جا سکتیں۔
ان کو ابتداء سے یہ احساس رہا ہے کہ ایک نئی نبوت کا دعویٰ لے کر جو شخص یا گروہ اٹھے اس کا کسی آزاد وبااختیار مسلم سوسائٹی کے اندرپنپنا مشکل ہے۔ وہ مسلم قوم کے مزاج سے واقف