جیسا کہ پاکٹ بک مرزائیہ کا خیال ہے ۔ بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ صاحب شریعت نبی نہیں آئے گا۔ صرف نزول عیسیٰ علیہ السلام کی وجہ سے ہے۔ نہ کہ نئی نبوت کی خاطر۔ اس لئے بعض علماء نے اس حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ میرے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی۔ یعنی نیانبی نہیں آئے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام چونکہ پہلے کے نبی ہیں۔ اس لئے ان کانزول اس حدیث کے خلاف نہیں۔ ملاحظہ ہو (تفسیر کشاف ج۳ص۵۴۵،۵۴۴) وغیرہ۔ خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں صرف نزول عیسیٰ علیہ السلام کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اجراء نبوت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ علاوہ اس کے اگر نبوت کاسلسلہ جاری ہوتا۔ تو پھر نزول عیسیٰ علیہ السلام کی کیاضرورت تھی؟ الغرض یہ سب مرزائیوں کی مغالطہ دہی ہے۔ورنہ تکملہ کی عبارت کا مطلب بالکل واضح ہے۔
حضرت علیؓ اورمسئلہ ختم نبوت
ایسے ہی الفضل کے اس نمبر میں تفسیر درمنثور کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کاقول ذکر کیا ہے کہ ابوعبدالرحمن بن اسلمی ؓ ،حسن ؓ ،حسین ؓ کو قرآن پڑھارہے تھے۔ تو حضرت علیؓ نے ان کو فرمایا کہ خاتم النّبیین میں خاتم کو ت کے زبر کے ساتھ پڑھاؤ اور اس سے حضرت علیؓ کا مقصد یہ تھا کہ خاتم زیر کے ساتھ ہو تو اس کے معنے ختم کرنے والے کے ہیں اور اگر خاتم زبر کے ساتھ ہو تو اس کے معنے مہر کے ہیں اورنبوت چونکہ ختم نہیں ہوئی۔اس لئے حضرت علی ؓ نے زبر کے ساتھ پڑھانے کی ہدایت فرمائی۔ حالانکہ یہ وجہ نہ تھی۔ بلکہ اس کی قرأت زیر کے ساتھ تھی۔ اس لئے زبر کے ساتھ پڑھنے کی ہدایت فرمائی۔ورنہ خاتم اگر زبر کے ساتھ ہو اوراس کے معنے مہر کے ہوں۔ تب بھی اس کا مطلب وہی ہے جو زیر کے ساتھ ہے۔ چنانچہ اوپر ذکر ہوچکا ہے اورچونکہ زیر کے ساتھ بھی قرآن مجید کی ایک قرأت ہے۔اس لئے دونوں کامطلب ایک ہوناضروری ہے۔ تاکہ آپس میں مخالفت نہ ہو۔ لیکن مرزائیوں کو اس کی کیا پرواہ ۔وہ مغالطے دے کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ خدا ان فتنوں سے بچائے۔ آمین
مسلمان اورمرتد کی تعریف
تحقیقاتی عدالت میں مسلمان کی تعریف میں بھی بڑااختلاف ہوا ہے۔ یہاں تک کہ عدالت کے بڑے رکن مسٹر محمد منیر نے یہ کہہ دیا کہ دو علماء بھی مسلمان کی تعریف پر متفق نہیں ہوئے۔ ملاحظہ ہو ( اخبار آثار مورخہ ۲۶؍صفر۱۳۷۳بمطابق ۵؍نومبر۱۹۵۳ئ)
حالانکہ یہ بنیادی چیز ہے اوربنیادی چیز میں اختلاف اصل شے کومتزلزل کر دیتا ہے۔ جس کامطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہوا کہ دنیا میں اسلام ایک ایسا محمل سا لفظ ہے ۔ جس کے معنے