اپنے دس کروڑ ہندی مسلمانوں کی عملی ہمدردیوں کے محروم ہو گئے اور مجلس احرار اسلام کے ہزاروں سرفروش اورجانباز رضا کاروں پر جو مظلوم مسلمانان کشمیر کی امداد کے لئے ریاست میں داخل ہورہے تھے۔قید وبند کی صعوبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔
درپردہ سازشیں
مسلمانان ریاست جموں وکشمیر کی واحد سیاسی جماعت آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے مخلص ارکان فرقہ مرزائیہ کے ملت کش عزائم سے واقف تھے۔ اس لئے مسلم کانفرنس کے آئین میں ایسی دفعات شامل کر لی گئیں جن کی رو سے مرزائیوں کے لئے اس جماعت کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ لیکن یہ لوگ بھی کب نیچے بیٹھنے والے تھے۔ کشمیر میں تنخواہ دار ایجنٹوں کی ایک کھیپ بھیج دی گئی۔ سرینگر سے اصلاح نام کا ایک ہفتہ وار اخبار جاری کردیاگیا اورنہایت ہوشیاری سے ایک طرف تو مسلمانوں کے متاع ایمان پرڈاکے ڈالنے شروع کر دیئے گئے اور دوسری طرف مسلمان اکابرین ملت اورمسلم کانفرنس کے خلاف مکروہ پروپیگنڈہ کی بنیادڈال دی ۔چنانچہ کوٹلی کے رسوائے عالم جریدہ ’’نوائے کشمیر‘‘کے پس پردہ مقالہ نویس عبدالغفار وعبدالواحد مرکز مرزائیہ قادیان کے تنخواہ دار ایجنٹوں کی حیثیت سے ’’اصلاح‘‘ سرینگر کے صفحات پر برسوں اپنے خبث باطن کا سنڈاس بکھیرتے رہے اورنہایت چالاکی اورمکاری سے مسلمانوں میں انتشار وافتراق کی آگ بھڑکانے میں سرگرم عمل رہے۔ چنانچہ اخبار بین حضرات سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ’’اصلاح‘‘نے مسلمانان کشمیر کی تحریک آزادی کو نقصان پہنچانے کی مہم کو آخیر وقت تک جاری رکھا۔یہ علیحدہ بات ہے کہ خداتعالیٰ نے ان کے ناپاک ارادوں کو کامیابی کے زینہ تک پہنچنے نہ دیا۔ بلکہ الٹا انہیں خائب وخاسر کر کے اپنے حقیقی ڈربہ میں گھسنے پرمجبور کردیا۔
مرزائیوں کی ایک اورکوشش
۱۹۴۶ء کی تاریخی اورانقلابی قرارداد آزادی کے منظور کرنے کے بعد جب ڈوگرہ حکومت نے قائد ملت چودھری غلام عباس خان اورآل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے دوسرے ممتاز کارکنوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا تو ان کی عدم موجودگی میں مرزائیوں کو پھر ایک موقع مل گیا کہ وہ ریاستی سیاسیات میں گھس پھنس کر اپنی دیرینہ آرزوؤں کو پوراکریں۔چنانچہ انہوں نے جہاد آزادی کے دوران میں ’’فرقان بٹالین‘‘ کے نام سے ایک فوج مرتب کی جو خالص مرزائیوں پر مشتمل تھی۔ دراصل اس فوج کی ترتیب اس لئے عمل میں لائی گئی کہ اس کے نام پر یہ اپنے ٹولہ منظم