کیوں نہ ہو جب نبوت ہی الگ ہو گئی تو باقی سب کچھ خود بخود الگ ہو گیااورجیسے یہودی ،عیسائی ہم سے ہر معاملہ میں الگ ہیں۔ ایسے ہی مرزائی ہیں۔ چنانچہ گزشتہ صفحات میں حسب ضرورت تفصیل ہوچکی ہے۔
لاہوری مرزائی کاکفر!
گزشتہ بیان سے یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ اس بناء پرلاہوری مرزائی کافر نہیں ہونا چاہئے ۔ کیونکہ وہ ختم نبوت کا قائل ہے اورمرزاغلام احمد کو نبی نہیں مانتا۔ اول تو یہ شبہ یہاں مضر نہیں۔ اس لئے کہ لاہوری مرزائی اقل قلیل ہے اورمقابلہ اس وقت قادیانی سے ہے۔ اس کے علاوہ لاہوری مرزائی بھی کافر ہیں۔ جس کے کئی دلائل ہیں۔
اوّل… یہ کہ مسیح موعود کے متعلق امت کامتفقہ عقیدہ ہے اوراحادیث میں بھی اس کی تصریح ہے کہ وہ نبی ہے۔ مگر لاہوری مرزائی اس کی نبوت سے منکر ہیں۔اس بناء پر وہ بھی کافر ہیں۔
دوم… امت کا اجماع ہے اور قرآن وحدیث اس پرمتفق ہیں کہ آنے والے مسیح عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم ہیں۔ ایسے قطعیات کا منکر کافر ہے۔
سوم… مرزاغلام احمدقادیانی کے دعویٰ نبوت میں شک نہیں۔چنانچہ مرزامحمود نے اپنی کتاب ’’حقیقت النبوۃ‘‘ میں اس کے لئے ضرورت سے زیادہ مواد جمع کر دیاہے اور یہ لاہوری مرزائیوں کو بھی مسلم ہے۔ وہ صرف اس کی تاویل کرتے ہیں کہ ’’نبی ‘‘سے مراد محدث ہے۔ لیکن ’’محدث‘‘ کی تشریح وہی نبی والی کرتے ہیں کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔جودخل شیطانی سے محفوظ ہوتی ہے اورانبیاء کی طرح وہ مامور ہوتا ہے۔انبیاء کی طرح اس پرفرض ہوتا ہے کہ اپنے تئیں بآواز بلند ظاہر کرے(یعنی دعویٰ کرے) اوراس کامنکر مستوجب سزا ٹھہرتا ہے اورآیت سورئہ جن کی :’’الّامن ارتضیٰ من رسول ‘‘اس کو شامل ہے ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ اپنے رسولوں پر غیب کی خبریں کھولتا۱؎ہے۔
یہ سب حوالہ جات کتاب کتاب ’’نبوۃ فی الاسلام‘‘ مصنف مولوی محمد علی امیر جماعت مرزائیہ لاہور میں موجود ہیں۔ خصوصاً اس کا باب چہارم قابل ملاحظہ ہے۔ پس جب محدث کی تشریح نبی والی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ درحقیقت مرزائی دونوں گروہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے
۱؎ نبوت فی الاسلام کے ص۱۶۴ میں ہے کہ: ’’محدث نبی بالقوہ ہے اوراس کی مثال تخم درخت سے دی ہے کہ اس میں درخت بننے کی استعداد ہے۔ بالفعل درخت نہیں۔‘‘ لیکن محدث کی جو تشریح اوپر کی گئی ہے۔ اس پر یہ مثال چسپاں نہیں آتی۔کیونکہ یہ تشریح اس کو بالفعل ہی بناتی ہے۔