مستقل مدرسہ دینیات قائم کرنا چاہئے یا نہیں۔ اس وقت ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ نہیں کرنا چاہئے اوران کی دلیل یہ تھی کہ: ’’ہم میں اوردوسرے مسلمانوں میں چند مسائل کااختلاف ہے،ان مسائل کومسیح موعود (مرزاقادیانی) نے حل کردیا ہے اوران کے دلائل بتا دیتے ہیں ،باقی باتیں دوسرے مدرسوں سے سیکھی جاسکتی ہیں۔‘‘دوسرا گروہ اس کے برعکس رائے رکھتا تھا۔ اس دوران میں مرزاقادیانی آگئے اورانہوں نے یہ ماجرا سن کر اپنا فیصلہ دیا۔اس فیصلے کو خلیفہ صاحب ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں۔
’’یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا اور چند مسائل میں ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی ذات ،رسول کریمﷺ ،قرآن، نماز،روزہ،حج، زکوٰۃ، غرض آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ان سے ہمیں اختلاف ہے۔ ‘‘
نئے مذہب کے نتائج
اس ہمہ گیر اختلاف کو اس کے آخری منطقی نتائج تک بھی قادیانیوں نے خود ہی پہنچا دیا اور مسلمانوں سے تمام تعلقات منقطع کرکے ایک الگ امت کی حیثیت سے اپنی اجتماعی تنظیم کر لی۔ اس کی شہادت قادیانیوں کی اپنی تحریرات سے ہمیں یہ ملتی ہے۔
’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے سختی سے تاکید فرمائی ہے کہ کسی احمدی کو غیر احمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔باہر سے لوگ اس کے متعلق بار بار پوچھتے ہیں۔میںکہتا ہوں کہ تم جتنی دفعہ بھی پوچھو گے اتنی دفعہ ہی میں یہی کہوں گا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہیں،جائز نہیں،جائز نہیں۔‘‘ (انوارخلافت ص۸۹)
’’ہمارایہ فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اوران کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خداتعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۰)
’’اگرکسی غیر احمدی کا چھوٹابچہ مر جائے تو اس کاجنازہ کیوں نہ پڑھا جائے،وہ تو مسیح موعود کامنکر نہیں؟ میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوؤں اورعیسائیوں کے بچوں کاجنازہ کیوں نہیں پڑھاجاتا؟… غیر احمدی کابچہ بھی غیر احمدی ہوا،اس لئے اس کاجنازہ بھی نہیں پڑھناچاہئے۔‘‘ (انوارخلافت ص۹۳)
’’حضرت مسیح موعود نے اس احمدی پر سخت ناراضگی کااظہار کیا ہے جو اپنی لڑکی غیر احمدی کو دے۔ آپ سے ایک شخص نے باربار پوچھا اورکئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا۔لیکن آپ