عقیدے اورعمل کے مطابق ہوگا۔ ان میں سے صرف دوآدمی بچیں گے۔ ایک حضرت امام مہدی کو اس واقعہ کی اطلاع دے گا اوردوسرا سفیانی کو۔عرب کی فوجوں کے اجتماع کا حال سن کر عیسائی بھی چاروں طرف سے فوجوں کو جمع کرنے کی کوشش میں لگ جائیں گے اور اپنے اور روم کے ممالک سے فوج کثیر لے کر امام مہدی کے مقابلے کے لئے شام میں جمع ہو جائیں گے۔
مقابلہ کیلئے اجتماع اورامام مہدی کے ساتھ خونریز جنگ
اور آخر میں امام مہدی کی فتح مبین
ان کی فوج کے اس وقت ستر جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ بارہ ہزار سپاہ ہو گی۔جس کی تعداد (۸۴۰۰۰۰)ہوگی۔ حضرت امام مہدی مکہ مکرمہ سے روانہ ہوکر مدینہ منورہ پہنچیں گے اورپیغمبر خدا ﷺ کے روضہ کی زیارت سے مشرف ہوکر شام کی جانب روانہ ہوں گے۔ دمشق کے پا آکر عیسائیوں کی فوج سے مقابلہ ہوگا۔
اس وقت امام مہدی کی فوج کے تین گروہ ہو جائیں گے۔ ایک گروہ نصاریٰ کے خوف سے بھاگ جائے گا۔خداوند کریم ان کی توبہ ہرگز قبول نہ فرمائے گا۔ باقی فوج میں سے کچھ تو شہید ہو کر بدر اوراحد کے شہداء کے مراتب کو پہنچیں گے اورکچھ بتوفیق ایزدی فتح یاب ہوکر ہمیشہ کیلئے گمراہی اورانجام بد سے چھٹکارا پائیں گے۔ حضرت امام مہدی دوسرے روز پھر نصاریٰ کے مقابلے کے لئے نکلیں گے۔اس روز مسلمانوں کی ایک جماعت یہ عہد کر کے نکلے گی:’’یامیدان جنگ فتح کریں گے یا مر جائیں گے۔‘‘یہ جماعت سب کی سب شہید ہو جائے گی۔
حضرت امام مہدی باقی ماندہ قلیل جماعت کے ساتھ لشکر میں واپس جائیں گے۔ دوسرے دن پھر ایک بڑی جماعت یہ عہد کرے گی کہ فتح کے بغیر میدان جنگ سے واپس نہیں آئیں گے،یا پھر مر جائیں گے اورحضرت مہدی کے ہمراہ بڑی بہادری کے ساتھ جنگ کریں گے اورآخر میں یہ بھی جام شہادت نوش کریں گے۔شام کے وقت امام مہدی تھوڑی سی جماعت کے ساتھ واپس اپنی قیام گاہ تشریف لے آئیں گے۔ چوتھے روز حضرت امام مہدی رسد گاہ کی محافظ جماعت کو لے کر دشمن سے پھر نبرد آزما ہوں گے۔ یہ جماعت تعداد میں بہت کم ہوگی۔ مگر خداوند کریم ان کو فتح مبین عطاء فرمائے گا۔عیسائی اس قدر قتل ہوں گے کہ باقیوں کے دماغ سے حکومت