اس حدیث میں انتخاب کا حق انہی کودیا ہے۔ جن پر امارت ہو گی۔ لیکن ان میں اہل حل والعقد مقدم ہوں گے۔ جیسے ابھی ذکر ہوا۔ دوسری صورت تقررامارت کی یہ ہے کہ اﷲ کی کتاب اوراس کے حدود احکام کوضائع ہوتے ہوئے دیکھ کر کوئی انسان امارت کی باگ دوڑ سنبھالنے کی کوشش کرے۔ یا اس کا سوال کرے۔جیسے قرآن مجید میں ہے:’’قال اجعلنی علے خزائن الارض انی حفیظ علیم(یوسف:۵۵)‘‘{یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کو کہا مجھے وزیرخزانہ بنا دو۔کیونکہ میںمحافظ واقف کارہوں۔}
حضرت حسینؓ امارت کی کوشش کرتے کرتے کربلا کے میدان میں شہید ہوگئے۔ اگر ان کی امارت قائم ہو جاتی ۔ تو وہ بھی اسی قسم کی ہوتی۔ چنانچہ تاریخ ابن جریر وغیرہ میں ہے کہ انہوں نے کتاب اﷲ ہاتھ میں لے کر کہا:’’ یااﷲ! تو جانتا ہے کہ مجھے امارت کی حرص نہیں۔ یزید نے تیری کتاب کوضائع کردیا۔میں اس کوقائم کرناچاہتاہوں۔‘‘
تیسری صورت یہ کہ کوئی اقتدار پسند انسان تغلب (زور بازو یالطائف الحیل) کے ساتھ امیر بن جائے۔جیسے یزید کی امارت اسی قسم سے ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد اقتدار تھا۔ نہ کہ حدود اﷲ قائم کرنا۔
بیعت یا حلف وفاداری
پہلی دوصورتیں تقرر امارت کاصحیح طریقہ ہے اورشرعی حدود کے اندرہے۔ اس لئے اس میں شمولیت ضروری ہے۔ اگر ایسی امارت کی بیعت سے گریز کرے یاحلف وفاداری نہ اٹھائے۔ تو ایسے شخص کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:’’واولی الامر منکم (النساء :۵۹)‘‘اورحدیث شریف میں ہے:’’مات میتۃ جاھلیۃ (مشکوٰۃ کتاب الامارۃ ص۳۲۰ الفصل اوّل)‘‘
رہی تیسری صورت سو اس کا حکم اوپر بیان ہوچکاہے کہ بادشاہوں کو لعن طعن کرنے کی بجائے خدا کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔تاکہ خدا ان کے دل نرم کرے اور تمام مشکلیں حل ہو جائیں۔ کیونکہ مصائب کااصل باعث انسان کے اپنے اعمال ہیں۔ رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں: ’’کماتکونون کذالک یؤمرعلیکم(مشکوٰۃ کتاب الامارۃ ص۳۲۳الفصل الثالث)‘‘{تم جیسے ہوگے، ویسے ہی تم پر امیر مقرر ہوںگے۔}
ایسے امراء سے بیعت یا حلف وفاداری کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ عبداﷲ بن عمرؓ نے یزید اور عبدالمالک بن مروان کے ساتھ بیعت کر لی اورلکھا کہ خدا ورسولؐ کی اطاعت پر بیعت ہے اور