مرزا ئے قادیان کے کارنامے اورموجودہ مرزاقادیانی (خلیفہ قادیان یادجال ربوہ) کی نت نئی سازشوں اورہتھکنڈوں کی تفصیل کے لئے زیرنظر پمفلٹ کی تنگ دامانی اجازت نہیں دیتی۔اس لئے ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی خدمت میں یہ مخلصانہ مشورہ پیش کرتے ہیں کہ آپ مستقل طور پر اخبار سہ روزہ آزاد سرکلر روڈ لاہور کا مطالعہ جاری رکھیں،تاکہ اس گروہ مرتدین کی شر انگیزیوں سے آشنا اورکوائف حاضری وتعلیمات اسلامیہ سے بہرہ مند ہوتے رہیں۔
ریاست جموں وکشمیر کی قومی تحریکوں میں مرزائیوں کاحصہ
جہاںتک ریاست جموں وکشمیر کے اندرتحریک حریت کا تعلق ہے،اس کی مختصر سی تاریخ جامع الفاظ میں بانی تحریک چودھری غلام عباس خان قائد ملت اسلامیہ ریاست جموں وکشمیر کی زبانی سنیں:’’ حکومت آزاد کشمیر کا قیام اس خواب کی زندہ جاوید تعبیر ہے جو۱۹۲۸ء میں پرنس آف ویلز کالج کے چند غیور طلباء نے دیکھا تھااورمسلم ینگ مینز ایسوسی ایشن کی شکل میں سیاست کے عملی میدان میں اتر کر پہلی بارڈوگرہ حکومت کے سیاہ نامہ اعمال کا مواخذہ کیا تھا۔ ۱۹۳۱ء میں اسلامیان جموں وکشمیر کو متحد ومنظم کرکے انہیں جدوجہد آزادی کے لئے تیار کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی اوراس عظیم اورنابل تسخیر قوت کی بنیا دپڑی۔جسے آج ’’آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس‘‘ کہا جاتا ہے اور مشکلات کے باوجودجس کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی اور وہ راہ آزادی کے دشوار ترین مراحل طے کرتی رہی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ڈوگرہ حکومت کوطوعاًوکرہاً تقاضائے ملی کے آگے گھٹنے ٹیک دینے پڑے۔ہندو کانگریس کوکشمیر میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار منظور نہ تھا۔چنانچہ اسلامیان جموں وکشمیر کی متحد ومنظم صفوں میں انتشار پھیلانے کے لئے مسلم کانفرنس کونیشنل کانفرنس کالبادہ اوڑھنے کی دعوت دی گئی۔‘‘
چنانچہ اس مرحلہ پر قائد ملت اوران کے رفقائے کار نے نیشنل کانفرنس کا روپ دھارنے کی اس منافقانہ تجویز کو ٹھکرا کر تنظیم ملت کے لئے جو ایمان دارانہ قدم اٹھایا ۔وہ اس اسلامی تصور کی بناء پرتھا۔جو آگے چل کر قیام پاکستان کا باعث بنا اوراس پیش بندی نے ملت اسلامیہ کو ہندوکانگریس کے دام میں گرفتاری سے بچالیا۔
آزادکشمیر قرارداد کی منظوری
اسی طرح جب شیخ عبداللہ اوران کے حواریوں نے اپنے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی اور سستی شہرت کے حصول کے لئے ’’کشمیر چھوڑ دو‘‘کا شوشہ چھوڑا تو ۱۹۴۶ء میں قائد ملت کی قیادت میں مسلم کانفرنس نے ’’آزاد کشمیر‘‘ کی انقلابی قرارداد منظور کی اوراسلامیان ریاست جموں