M
نوائے کشمیرکوٹلی
دجال قادیان اوراس کے بیٹے کذاب ربوہ (چناب نگر) مرزا بشیرمحمود کی ابلیس برادری نے ریاست جموں وکشمیر کے غیور اہلیان اورسادہ لوح مسلمانوں کی دولت ایمان پر ڈاکہ ڈالنے، ان کی وحدت ملی کو پارہ پارہ کرنے اورانہیں اپنی بیس سالہ واحد قومی تنظیم سے برگشتہ خاطر اوراپنے آزمودہ ومخلص رہنماء بطل حریت رئیس الاحرار قائد ملت چودھری غلام عباس خان سے بدگمان کرنے اورہر ممکن طریق سے انتشار پھیلا کر تحریک آزادی کشمیر کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے جہاں دجل وفریب کے بیسیوں جال پھیلائے۔
وہاں اب تحصیل کوٹلی ضلع میرپور میں ایک شیطانی چرخہ چلایاہے۔ جس کانام انہوں نے ’’نوائے کشمیر‘‘ رکھا ہے۔ یہ چیتھڑا جسے اخبار کہنا بھی درحقیقت اخبارات کی توہین ہے۔ فرقہ ،ضالہ مرزائیہ کے مکروہ مقاصد کی تبلیغ او رناپاک ارادوں کی تکمیل کے لئے اگرچہ لاہور اورراولپنڈی ہی میں مرتب ومدون ہوتاہے۔ تاہم اسے کوٹلی آزاد کشمیر سے شائع ہونا بیان کیاجاتا ہے اور علاقہ میں وسیع پیمانہ پر اس کی مفت تقسیم عمل میں لائی جاتی ہے۔ دجل وتلبیس کی مذکرۃ الصدر اشاعت کا معاملہ اگر صرف تحصیل کوٹلی تک ہی محدود ہوتا تو شاید ہم یہ سطور قلمبند کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے۔ کیونکہ کوٹلی کے تقریباً تمام مرزائی جاہل مطلق ہیں۔ اس لئے ان کے جواب کے لئے یہی کافی تھا کہ: ’’جواب جاہلاں باشد خموشی‘‘
البتہ اگر مرزائیوں کے کسی زر خرید غلام کو اسلام کے منافی ہرزہ سرائی میں مصروف پاتے تو خود بھی لاحول پڑھتے اوراپنے سادہ لوح بھائیوں کو رفع شر کے لئے یہی آزمودہ نسخہ بتاتے اور اسے حسب ضرورت استعمال کرنے کی تاکید کرتے کہ اس سے شیاطین کا دم دبا کر بھاگنا یقینی تھا اور اگر اس طرح مرزائی اپنے منحوس اشغال اورملعون حرکات سے باز نہ آتے تو پھر ہم کوٹلی کے مرزائی ٹولہ کے خبث باطن کابھانڈاچوراہے میں پھوڑ کر ان کی ملت فروشیوں سے مسلمانان ریاست کو آگاہ کرتے۔ اسلامیان ریاست کو یاد دلاتے۔ اس روح فرسا اور زہرہ گذار واقعہ کی، جب کوٹلی کی شاہی مسجد کو ڈوگرہ حکومت نے مقفل کردیاتھا اورمسجد کوواگزار کرانے کے لئے غازی الٰہی بخش ، شیخ فضل لطیف اوردوسرے سرفروش مجاہدوں کی سرکردگی میں میرپور ،بھمبر، پونچھ،کوٹلی میر پور وغیرہ مقامات سے جتھے آنے شروع ہوگئے۔ زعمائے مسلم کانفرنس نے پوری ریاست میں