کی بونکل جائے گی اوربے سروسامان ہوکر نہایت ذلت ورسوائی کے ساتھ بھاگ جائیں گے۔
مسلمان ان کا تعاقب کر کے بہتوں کو جہنم رسید کردیں گے۔ اس کے بعد امام مہدی بے انتہاء انعام واکرام اس میدان کے جانبازوں میں تقسیم فرمائیں گے۔مگر اس مال سے کسی کو خوشی حاصل نہ ہوگی۔کیونکہ اس جنگ کی بدولت بہت سے خاندان وقبیلے ایسے ہوں گے ۔ جس میں فیصد صرف ایک آدمی ہی بچاہوگا۔ اس کے بعد امام مہدی بلاد اسلام کے نظم ونسق اور فرائض اور حقوق العباد کی انجام دہی میں مصروف ہوں گے۔ چاروں طرف اپنی فوجیں پھیلا دیں گے اوران مہمات سے فارغ ہو کر فتح قسطنطنیہ کے لئے روانہ ہو جائیں گے۔
ستر ہزار فوج کے ساتھ امام مہدی کی فتح قسطنطنیہ کیلئے روانگی
اور ایک نعرہ تکبیر سے شہر کا فتح ہو جانا
بحیرہ روم کے کنارے پر پہنچ کر قبیلہ بنو اسحاق کے ستر ہزار بہادروں کو کشتیوں پر سوار کر کے اس شہر کی خلاصی کے لئے جس کو آج کل استنبول کہتے ہیں،مقرر فرمائیں گے۔ جب یہ فصیل شہر کے قریب پہنچ کر نعرہ تکبیر بلند کریں گے تو اس کی فصیل خدا کے نام کی برکت سے یکایک گر جائے گی۔مسلمان ہلاّکر کے شہر میں داخل ہوں گے۔شورشوں کو ختم کرکے ملک کا انتظام نہایت عدل وانصاف کے ساتھ کریں گے۔ابتدائی بیعت سے اس وقت تک چھ سات سال کا عرصہ گزرے گا۔امام مہدی ملک کے بندوبست ہی میں مصروف ہوں گے کہ افواہ اڑے گی کہ دجال نکل آیا۔
امام مہدی کا دجال کی تحقیق کیلئے ایک مختصر دستے کا روانہ فرمانا
اوران کی افضلیت کا حال
اس خبر کے سنتے ہی حضرت امام مہدی ملک شام کی طرف واپس ہوں گے اور اس خبر کی تحقیق کے لئے پانچ یا نو سوار جن کے حق میں حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ:’’میں ان کے ماں، باپ، قبائل کے نام اوران کے گھوڑوں کا رنگ جانتا ہوں اور اس زمانے کے روئے زمین کے آدمیوں سے بہتر ہوں گے۔‘‘لشکر کے آگے بطور طلیعہ روانہ ہوکر معلوم کریں گے کہ یہ افواہ غلط ہے۔ پس امام مہدی عجلت کو چھوڑ کر ملک کی خبرگیری کی غرض سے آہستگی اختیار فرمائیں گے۔
اس میںکچھ عرصہ نہ گزرے گا کہ دجال ظاہر ہو جائے گا اورقبل اس کے کہ وہ دمشق