ساتھ مل کر کر سکتے ہیں؟ دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔ ایک دینی دوسرادنیوی۔ دینی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کااکٹھا ہونا ہے اوردنیوی تعلق کا بھاری ذریعہ رشتہ ناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لئے حرام قرار دیئے گئے۔اگر کہو کہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے۔ تو میں کہتاہوں کہ نصاریٰ۱؎ کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے۔اور اگر یہ کہو کہ غیر احمدیوں کو سلام کیوں کہا جاتا ہے۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کریم نے یہود تک کا جواب دیاہے۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۷۰،۱۶۹)
مقام غور!
ان عبارات کو پڑھئے ۔بار بارپڑھئے اورغو ر کیجئے کہ جن لوگوں کی مسلمانوںسے مقاطعہ کی یہ سکیمیں ہوں۔ان کو مسلمانوں میں شامل کرنا انصاف اورعدالت کا خون نہیں تو اور کیا ہے؟۔
آپس میں تکفیر کا مسئلہ
مذکور بالا عبارت سے مرزائیوں کی سکیم مقاطعہ کی وضاحت کے علاوہ ایک شبہ کا جواب بھی ہوگیا۔ جو عام طور پرکیا جاتا ہے اوربظاہر معقول سمجھا جاتا ہے۔ وہ شبہ یہ ہے کہ دوسری جماعتوں میں بھی تکفیر کا سلسلہ جاری ہے۔ مثلاً بریلوی ،دیوبندیوں کا کافر سمجھتے ہیں اور دیو بندی بریلویوں کو۔ اس طرح اہلحدیث کے ساتھ ان کا اختلاف ہے۔ نیز شیعہ سنی نزاع بھی اسی رنگ کا ہے اورعلیٰ ہذاالقیاس دوسری جماعتوں کو سمجھ لیا جائے ۔اگر اسی طرح کی تکفیر سے ایک دوسرے کوکاٹا جائے اورامت مسلمہ سے الگ کیا جائے۔تو پھر مسلمان کون رہا۔؟
جواب!! اس امر کا یہ ہے کہ کفر واسلام کی ایک تفریق کسی شخصیت میں اختلاف کی بناء پر ہوتی ہے۔ جیسے عیسائیوں میں اوریہودیوں میں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں تفریق ہے۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں۔ لیکن یہودی اس کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان حضرت محمدﷺ کو سید المرسلین تسلیم کرتے ہیں اورعیسائی ویہودی آپؐ کی تکذیب کرتے ہیں اورایک تفریق کسی شخصیت میں اختلاف کی بناء پر نہیں ہوتی۔ بلکہ دونوں اس کو صاحب وحی وصاحب الہام مانتے ہیں اور اسی کی وحی والہام کو دلیل میں پیش کرتے ہیں۔ تکفیر صرف الہامی کلام کے ثبوت، عدم ثبوت یا اس کے معنے ومفہوم میں اختلاف کی بناء پر ہوتی ہے۔ جیسے مرزائی لاہوری اورقادیانی ہر دو گروہ مرزا غلام احمد کو صاحب وحی وصاحب الہام مانتے ہیں۔ ان کے قول
۱؎ ہمارے ’’روشن خیال‘‘ حضرات اسلامی غیرت نہ سہی کم ازکم انسانی حمیت کو ملحوظ رکھ کر اس عبارت مرزائیہ کو خاص غور سے پڑھیں۔