کھول دے اور ہم اس نئی امت کو مسلمانوں سے کاٹ کر الگ کر دیں تو پھر کسی نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھنے اورامت مسلمہ کے اندر پھر سے قطع وبرید کاسلسلہ شروع کرنے کی ہمت نہ ہوگی ورنہ ہمارے اس ایک قطع وبرید کو برداشت کرلینے کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم ایسے ہی دوسرے بہت سے حوصلہ مندوں کی ہمت افزائی کررہے ہیں۔ہمارا آج کا تحمل کل دوسروں کے لئے نظیر بن جائے گا اورمعاملہ ایک قطع وبرید پرختم نہ ہوگا۔بلکہ آئے دن ہمارے معاشرے کو نئی نئی پراگندیوں کے خطرے سے دوچار ہونا پڑے گا۔
قادیانیوںکو علیحدہ امت قراردینے کامطالبہ
یہ ہے وہ اصل دلیل جس کی بناء پر ہم قادیانیوں کو مسلمانوںسے الگ ایک اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس دلیل کا کوئی معقول جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ مگر سامنے سے مقابلہ کرنے کے بجائے چند دوسرے سوالات چھیڑے جاتے ہیں جو براہ راست نفس معاملہ سے متعلق نہیں ہیں۔مثلاً کہاجاتا ہے کہ مسلمانوں میں اس سے پہلے بھی مختلف گروہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے رہے ہیں اورآج بھی کر رہے ہیں۔ اگر اسی طرح ایک ایک کی تکفیر پر دوسرے کو امت سے کاٹ دینے کاسلسلہ شروع کر دیاجائے تو سرے سے کوئی امت مسلمہ باقی نہ رہے گی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں قادیانیوں کے علاوہ چند اورگروہ بھی ایسے موجود ہیں جو نہ صرف بنیادی عقائد میں سواد اعظم سے گہرااختلاف رکھتے ہیں ۔بلکہ عملاً انہوں نے اپنی اجتماعی شیرازہ بندی مسلمانوں سے الگ کر رکھی ہے اورقادیانیوں کی طرح وہ بھی سارے مذہبی ومعاشرتی تعلقات مسلمانوں سے منقطع کئے ہوئے ہیں۔ پھر کیا ان سب کو بھی امت سے کاٹ پھینکا جائے گا؟ یا یہ معاملہ کسی خاص ضد کی وجہ سے صرف قادیانیوں ہی کے ساتھ کیاجارہا ہے ؟ آخر قادیانیوں کا وہ خاص قصور کیا ہے ؟جس کی بناء پر اس طرح کے دوسرے گروہوں کو چھوڑ کر خصوصیت سے ان ہی کو الگ کرنے کے لئے اتنا اصرار کیا جاتا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ علیحدگی کا مطالبہ تواقلیت کیاکرتی ہے۔مگر یہ عجیب ماجرا ہے کہ آج اکثریت کی طرف سے اقلیت کو الگ کرنے کامطالبہ کیاجارہا ہے۔حالانکہ اقلیت اس کے ساتھ رہنے پر مصر ہے۔
بعض لوگوں کے ذہن پر یہ خیال بھی مسلط ہے کہ قادیانی حضرات ابتداء سے عیسائیوں، آریہ سماجیوں اوردوسرے حملہ آوروں کے مقابلے میں اسلام کی مدافعت کرتے رہے ہیں اوردنیا بھر میں وہ اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں۔ان کے ساتھ یہ سلوک زیبانہیں ہے۔