گے۔کیونکہ اس نے بھی آسمانی ہی نام کا اعلان کیا ہے۔ ورنہ اس کی ماں چراغ بی بی کی نسبت سے اس کا الہامی نام چراغ دین تھا۔ گواس کی ماں نے اس نام غلام احمد رکھا تھا۔
(بخاری شریف ص۵۰۹،ج۱،باب علامات النبوہ فی الاسلام) میں ہے:’’حتی یبعث دجالون کذابون قریبا من ثلثین کلھم یزعم انہ رسول اﷲ‘‘ {قیامت اس وقت تک نہ آئے گی۔ جب تک تقریباًتیس دجال کذاب نہ پیدا ہولیں۔جن میں سے ہر ایک مدعی ہوگا کہ میں رسول ہوں}اس حدیث میں مدعی رسالت کا نام دجال اور کذاب ہوا۔
یہ وہی بخاری شریف ہے۔ جس کی حدیثوں کی صحت کامرزا کذاب بھی قائل ہوا۔ لہٰذا اب اس کو اسی آسمانی نام سے میں بھی یاد کروں گا۔مرزا دجال کذاب کے کاذب ہونے کی شہادت قرآن مجید ،انجیل شریف، حدیث شریف سے گزری اور حدیث نے ایک بات اوربھی بتا دی کہ وہی دجال کذاب بھی ہے۔مگر یہ سب ذریت ہے۔ اس دجال اکبر کی جو سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت ظاہر اورمقتول ہوگا۔ مرزاکذاب دجال نے جو اپنی مسیحیت،مہدویت،نبوت ورسالت پر دلائل قائم کئے ہیں۔ انہیں سنئے تاکہ دجالی ذریت کے انکار واغواء کے وقت کام آئیں۔
پیش گوئیاں
مرزا دجال نے اپنی نبوت ورسالت کے ثبوت میں سب سے بڑی دلیل پیشینگوئی کو قرار دیا ہے۔ پھر نزول عیسیٰ علیہ السلام کے وقت کے حالات وواقعات والی حدیثوں سے استدلال کیاہے۔ پھر سابقین کی پیشینگوئیوں کو اپنے اوپر چسپاں کیا ہے۔ عسل مصفیٰ قادیانی ص۸۰۹ ۔’’اب ہم پوچھتے ہیں کہ پیش از وقت ایسی باتوں کی خبر دینا سوائے خدا کے کسی انسان کا مقدور ہے۔لہٰذا کچھ شک نہیں کہ حضرت مرزاقادیانی خدا کے مرسل اورخدا کے محدث ہیں۔‘‘
مرزاکذاب کی بہت سی پیشینگوئیاں لکھنے کے بعد یہ دعویٰ کیا کہ ایسی پیشینگوئی سوائے خدا کے رسول کے اورکون کر سکتا ہے؟ کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ۔معلوم ہوا کہ مرزا نے بہت سی پیشینگوئی کر کے اپنی رسالت کاثبوت دیا ہے۔لہٰذا میں ان پیشینگوئیوں کو لکھتا ہوں۔ جن کے صادق ہونے نہ ہونے کو بہت ہی زوردار طور پر اپنی نبوت کامدار ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ (ازالہ اوہام ص۶۳۲،۶۳۵،خزائن ج۳ص۴۴۳) پرلکھا ہے:’’اب جس قدر میں نے بطور نمونہ کے پیشینگوئیاں بیان کی ہیں۔ درحقیقت میرے صدق یا کذب کے آزمانے کے لئے یہی کافی ہیں۔ خود لوگ ظہور کے وقت اندازہ کرلیں گے کہ کون شخص مقبول الٰہی ہے اورکون