اس بیان کی تصدیق کے لئے روزنامہ احسان لاہور مورخہ ۲۳؍مارچ۱۹۵۳ء کا پرچہ ملاحظہ فرمائیں۔ اس کے صفحہ اول پر زیرعنوان ’’پنجاب میں راست اقدام کی تحریک ایک خطرناک سازش تھی۔‘‘ گورنرپنجاب کی تشریحی تقریرشائع ہوئی۔جس کے مختصر الفاظ یہ ہیں۔
’’گورنر پنجاب مسٹر اسمٰعیل ابراہیم چندریگر نے آج شام ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنی ایک نشری تقریر میں کہاکہ:’’بدامنی کی حالیہ تحریک بظاہر ختم نبوت کے تحفظ کے لئے شروع کی گئی لیکن اس تحریک کے نام پر جو مطالبات پیش کئے گئے وہ سراسر سیاسی تھے اورعوام کو فریب دینے کے لئے انہیں مذہبی رنگ دیاگیا۔…گورنرموصوف نے کہا یہ پروپیگنڈہ بالکل غلط ہے کہ حکومت یا اس کے وزراء ختم نبوت کو نہیں مانتے۔ لیکن اس مسئلہ کو بدامنی کی دلیل بنانا اور’’ڈائریکٹ ایکشن ‘‘ کی ابتداء کرنا ایک خطرناک سازش تھی۔جس کی بیشتر ذمہ داری جماعت احرار پر عائد ہوتی ہے۔
مسٹر اسماعیل چندریگر نے کہا یہ وہ جماعت ہے جو شروع سے پاکستان کی دشمن رہی اور قیام پاکستان سے اب تک شاید ہی کوئی ایسا حربہ ہو جسے اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال نہ کیا ہو۔یہاں تک کہ بانی پاکستان کی شخصیت پر بھی حملے کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ گورنر پنجاب نے کہا اس تحریک کا اصل مقصد ملک میں انتشار وبدامنی پھیلانا تھا۔ اس لئے غدارانہ سازش میں بعض اور جماعتیں بھی شامل ہوگئیں۔ جن کا مدعا ان ذرائع سے سیاسی اقتدار حاصل کرنا تھا۔ صوبہ کے سادہ لوح عوام کو غلط راستہ پر ڈالنے کے لئے ان کی آنکھوں پر مذہب کی پٹی باندھ دی گئی اوران کے جذبات کو اشتعال انگیز تقریروں سے بھڑکایا گیا اور ہر ممکن کوشش کی گئی کہ حکومت کانظام معطل ہو جائے اورملک میں انتشار اورافراتفری پھیل جائے۔‘‘
اس تقریر میں حکومت اوروزراء کا عقیدہ ختم نبوت بتایاگیا اوراس کے ساتھ ہی مذکورۃ الصدر دو نظریات قائم کئے گئے ہیں۔ یعنی ایک!! تو اس تحریک کا مسئلہ ختم نبوت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوم!! یہ تحریک احرار کی پیدا وار ہے۔ جس کامقصد موجودہ نظام کو درہم برہم کر کے اپنا اقتدار قائم کرنا ہے۔
پیشتراس کے کہ ان نظریوں کے متعلق کچھ کہا جائے۔ مسئلہ ختم نبوت کی حقیقت کو واضح کرنا ضروری ہے۔
ختم نبوت کا مسئلہ
ختم نبوت کوئی فروعی یا جزوی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ ایمان واسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اور کفر واسلام میں حد فاصل ہے۔ جیسے سچے نبی کی تکذیب اورانکار کرنا کفر ہے۔ایسے ہی کسی جھوٹے