(ازالہ اوہام ص۴۲۱،خزائن ج۳ص۳۲۰) پر لکھتے ہیں:’’سوال :آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟‘‘ جواب:’’ نبوت کا دعویٰ نہیں، بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے۔ جو خدا ئے تعالیٰ کے حکم سے کیاگیا ہے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸،خزائن ج۲۲ص۵۰۳) پر یہ لکھا:’’خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں۔ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے مجھے بھیجا ہے اوراس نے میرا نام نبی رکھا ہے۔‘‘
یہ دونوں باتیں کہ نبی ہے اورنبی نہیں ہے۔ صحیح نہیں ہوسکتیں۔ ان دونوں میں سے ایک ہی صحیح ہو گی اوردونوں باتیں خدا کی طرف سے بتاتا ہے اورخدا کی ہر بات سچی ہے۔ یہاں دونوں باتیں سچی نہیںہو سکتیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی خدا کی بات نہیں۔ مرزا کہہ رہا ہے کہ خدا کی بات ہے۔ تو مرزا مفتری علی اﷲ ہوا۔ اورمفتری علی اﷲ نبی کیامعنی، مسلمان بھی نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’من اظلم ممن افتریٰ علی اﷲ الکذب ‘‘ {اس سے بڑھ کر ظالم کافر کون ہو گا جو اﷲ تعالیٰ پر افتراء کرے،جھوٹ باندھے۔} مرزاقادیانی اپنے قول سے کافر مرتد ،بے دین ہوا۔
پہلاکذب
مزید وضاحت کے لئے (مجموعہ اشتہارات ج۱ص۲۳۰) ملاحظہ ہو:’’نہ نبوت کا مدعی ہوں اورنہ معجزات اورملائکہ اور لیلۃ القدر وغیرہ سے منکر ہوں۔بلکہ میں ان تمام امور کا قائل ہوں ۔ جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ سنت جماعت کا عقیدہ ہے ۔ان سب باتوں کومانتا ہوں۔ جو قرآن وحدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیں اورسیدنا ومولانا حضرت محمدﷺ خاتم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت ورسالت کوکاذب اورکافرجانتا ہوں۔‘‘
دوسرا کذب
ابھی آپ تبلیغی کلام مرزا کے ص۱۲پر پڑھ چکے۔ ’’آنحضرتﷺ کو جو خاتم الانبیاء فرمایا گیا ہے۔اس کے یہ معنے نہیں کہ آپؐ کے بعد دروازہ مکالمات و مخاطبات الٰہیہ کا بند ہے۔ اگر یہ معنے ہوتے تو یہ امت ایک لعنتی امت ہوتی۔ اس کے ص۳ پر لکھا :’’میں نے خدا کی طرف سے کثرت مکالمہ ومخاطبہ کی نعمت سے مشرف ہو کر نبی کالقب پایا۔ ‘‘
ان عبارتوں کو دیکھ کر ہم کسی دوسرے کے فیصلہ کے محتاج نہیں رہتے ۔کیونکہ خود اس دجال نے فتویٰ سنادیا کہ میں ختم المرسلین ﷺ کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت ورسالت کو کافر و کاذب جانتاہوں۔ اب اس کے کافر وکاذب لعنتی مفتری ہونے میں کیاشبہ رہا؟ جو شخص سرے سے مسلمان ہی نہیں وہ مسلمانوں کا نبی یا امام مجدد کیسے ہو سکتا ہے؟