حضرت حسنؓ،عبداﷲبن زبیرؓ اورعبدالرحمن بن ابوبکرؓ وغیرہ سے بیعت نہیں کی اورعبداﷲ بن عمرؓ نے بھی اس وقت بیعت کی ۔ جب سب لوگ قریباً ایک امیر پر متفق ہوگئے۔جب تک اختلاف رہا۔ علیحدہ رہے۔ ملاحظہ ہو: ( بخاری جلد ۲کتاب الفتن ص۱۰۵۳،کتاب الاحکام ص۱۰۶۹ مع فتح الباری وغیرہ)
نکث بیعت یا نقص حلف برداری
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بڑے کے خلاف چھوٹے کی بات نہیں مانی جاتی۔ مثلاً پٹواری تحصیلدار کے خلاف یا سپاہی تھانیدار کے خلاف یا کسی اورمحکمے کاآدمی اپنے افسر کے خلاف کوئی حکم دے ۔وہ قابل سماعت نہیں ہوتا۔ خدا چونکہ احکم الحاکمین ہے۔ اس لئے جہاں اس کا حکم آجائے۔ وہاں دنیا کے بڑے سے بڑے کاحکم ٹھکرا دیا جاتا ہے۔ اسی بناء پر قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :’’ان الحکم الاﷲ‘‘ {حکم صرف اﷲ کے لئے ہے۔} اورحدیث شریف میں ہے:’’لا طاعۃ لمخلوق فے معصیۃ الخالق(مشکوٰۃ شریف)‘‘ {یعنے جہاں خدا کی نافرمانی ہو وہاں مخلوق کی کوئی تابعداری نہیں۔}
اگر کوئی حکومت اس کے خلاف مجبور کرے۔ تو وہ طاغوتی حکومت ہو گی اوراس کے متعلق قرآن مجید کافیصلہ ہے:’’واجتنبوا الطاغوت (النحل :۳۶)‘‘ {یعنے طاغوت سے بچو اوراس سے الگ ہو جاؤ۔}
دوسرے لفظوں میں اس کی بیعت یا حلف برداری توڑ دو۔
احادیث میں اس کی کچھ زیادہ وضاحت ہے۔(مشکوٰۃ شریف کتاب الامارۃ ص۳۱۹ الفصل الاول) کی چنداحادیث ملاحظہ ہوں:
۱… ’’وعن عبادۃ بن الصامت قال بایعنا رسول اﷲ ﷺ علے السمع والطاعۃ فے العسر والیسر والمنشط والمکرہ وعلیٰ اثرۃ علینا وعلی ان لاننازع الامر اھلہ وعلے ان نقول بالحق اینما کنا لانخاف فی اﷲ لومۃ لائم وف روایۃ وعلی ان لاننازع الامر اھلم الاان تروا کفر ابواحاعند کم من اﷲ فیہ برھان ‘‘ (متفق علیہ) {رسول اﷲﷺ نے ہم سے تین باتوں پر بیعت لی(الف) حکم سننا اورفرماں برداری کرنا۔ خواہ سختی ہو یا نرمی ،خوشی ہو یا ناخوشی اور خواہ ہم پر دوسرے کو ترجیح دی جائے۔ (ب) جو حکومت کا اہل ہے۔اس سے حکومت چھیننے کی کوشش نہ کرنا۔ مگر یہ کہ صریح کفر دیکھو۔ جس کے ثبوت پر خدا کی طرف سے تمہارے پاس قطعی دلیل ہو۔(ج) ہر جگہ حق کہیں خدا کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ کریں۔(بخاری مسلم) }