۲۷… ’’عن ابن عمر قال کان رسول اﷲﷺ فی نفر من المھاجرین والانصار(الی ان قال) فعلیکم الفتی التمیمی فانہ یقبل من قبل المشرق وھو صاحب رأیۃ المھدی‘‘
اس روایت میں ابن خلدون وغیرہ نے ابن لہیعہ پر کلام کیا ہے جس کے بارے میں تحقیق پہلے گزر چکی ہے۔ ابن خلدون نے اس روایت میں عبداﷲ ابن عمر کو بھی ضعیف کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے عبداﷲ بن عمر بن خطابؓ تو مراد نہیں ہو سکتے۔کیونکہ وہ توصحابی ہیں اور ’’الصحابۃ کلھم عدول‘‘کا قاعدہ تو مشہور ہے۔اس کے علاوہ اس نام کے راوی تقریب التہذیب میں تقریباً آٹھ ہیں اور سب کے سب ثقہ ہیں۔ عبداﷲ بن عمر بن حفص کو بعض محدثین نے ضعیف کہا ہے۔لیکن وہ بھی اکثر محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں اورمسلم، بخاری، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ کے راوی ہیں۔(ملاحظہ ہو تقریب التہذیب ص۱۸۲)
۲۸… اٹھائیسویں روایت حضرت طلحہ بن عبداﷲ کی ہے جو طبرانی کے معجم اوسط کے حوالے سے مقدمہ میں منقول ہے۔جس میں ابن خلدون اوراخترصاحب نے مثنی بن صباح پر جرح کی ہے۔(مقدمہ ص۳۲۲)
مثنیٰ اگرچہ اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔لیکن ابن عدی نے ان کی احادیث کو صالحہ کہا ہے۔جیسا کہ تہذیب التہذیب میں ہے کہ:’’قال ابن عدی لہ حدیث صالح (ص۳۶ج۱)‘‘اورداؤدالعطار نے کہاہے:’’لم ادرک فی ھذا لمسجد اعبد من المثنی بن الصباح (تہذیب التہذیب ص۳۶ج۱)‘‘کہ اس مسجد میں ان سے زیادہ کسی عابد کو میں نے نہیں دیکھا۔تو معلوم ہوا کہ بعض محدثین کے نزدیک قابل اعتبار ہیں۔نیز ترمذی، ابوداؤد اور ابن ماجہ کے راوی ہیں۔(ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب ص۳۵ج۱۰وتقریب التہذیب ص۳۲۸)
اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ یہ ضعیف روایات تائید میں پیش کی جارہی ہیں۔ عقیدہ ظہور مہدی ان ضعیف احادیث پر موقوف نہیں ہے۔بلکہ متواتر احادیث سے ثابت ہے۔کمامر یہ وہ بعض احادیث تھیں۔جن پر منکرین ظہور مہدی نے کلام کیاتھا۔بعض منکرین نے اس سلسلے میں ’’لامھدی الاعیسیٰ‘‘کی حدیث سے بھی استدلال کیاہے جو ابن ماجہ وغیرہ میں منقول ہے۔ لیکن یہ خود ابن خلدون کے اقرار کے مطابق منقطع مضطرب اورضعیف ہے۔
چنانچہ مقدمہ میں اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ :’’وھو منقطع و بالجملۃ