(ص۲۱۳)‘‘نیز یہ صحاح ستہ کے راوی ہیں۔ امام بخاری، امام مسلم نے ان کی روایات کی تخریج کی ہے۔(ملاحظہ ہوتقریب ص۲۱۳)تہذیب التہذیب میں حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ امام احمد بن حنبل سے پوچھاگیا کہ کیا آپ نے عبدالرزاق سے اچھی حدیث والا بھی کسی کودیکھا ہے کہ فرمایا کہ نہیں (ص۳۱۱ج۶)اورخود عبدالرزاق کے استاد معمر کا قول ہے کہ ’’واما عبدالرزاق فخلیق ان تضرب الیہ اکباد الابل (تہذیب ص۳۱۲)‘‘کہ عبدالرزاق اس کامستحق ہے کہ اس کے پاس اونٹوں پرسفر کرکے حاضری دی جائے اور یہ بھی منقول ہے کہ یحییٰ بن معین کے سامنے کسی نے کہاکہ عبداﷲ بن موسیٰ عبدالرزاق کی احادیث کو تشیع کی وجہ سے رد کرتا ہے:’’فقال کان عبدالرزاق واﷲ الذی لاالہ الاہو اعلیٰ فی ذالک منہ مأتہ ضعف (تہذیب التہذیب ص۳۱۳ج۶)‘‘کہ یحییٰ بن معین نے قسم اٹھا کر فرمایا کہ عبدالرزاق سو درجے عبید اﷲ بن موسیٰ سے اچھے تھے۔
اورعبداﷲ ابن احمد فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد امام احمد سے پوچھا کہ ’’ھل کان عبدالرزاق یتشیع ویفرط فی التشیع فقال اماانا فلم اسمع منہ فی ھذا شیئا (تہذیب ص۳۱۳ج۶)‘‘کہ کیا عبدالرزاق غالی شیعہ تھا۔ تو فرمایا کہ میں نے اس بارے میں ان سے کچھ نہیں سنا اورخود عبدالرزاق کا قول ہے کہ اس بارے میں کبھی میرا انشراح نہیں ہوا کہ حضرت علیؓ کو حضرت ابوبکرؓ وعمر ؓ پر فضیلت دوں۔ (تہذیب ص۳۱۳ج۲)ابن خلدون اور اخترصاحب تو تشیع کو رو رہے ہیں۔یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ ’’لوارتد عبدالرزاق ماترکناہ حدیثہ (تہذیب ص۳۱۴ص۶)‘‘کہ عبدالرزاق اگر نعوذ باﷲ مرتد ہو جائے۔پھر بھی ہم ان کی احادیث کو ترک نہیں کریںگے۔
اورعلامہ ذہبیؒ نے عباس بن عبدالعظیم کی جرح نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ ’’قلت ما وافق العباس علیہ مسلم بل سائر الحفاظ وائمۃ العلم یحتجون بہ (میزان الاعتدال ص۶۱۱ ج۲)‘‘کہ اس جرح پر کسی مسلمان نے بھی عباس کی موافقت نہیں کی ہے۔ بلکہ تمام محدثین عبدالرزاق کی احادیث کو قابل احتجاج مانتے ہیں اورعلامہ ذہبیؒ نے میزان الاعتدال میں علی بن مدینی کے ترجمہ میںلکھا ہے کہ ’’ولوترکت حدیث علی وصاحبہ محمد وشیخہ عبدالرزاق وعثمان بن ابی شیبۃ وابراہیم ابن سعد و عفان وابان العطار واسرائیل وازھر السمان وبھز بن اسد وثابت البنانی وجریر