نیز یہ کہ یہ روایت ابوقلابہ ابواسماء رحبی سے نقل کرتے ہیں کہ ابواسماء رحبی اوران کا زمانہ ایک تھا نیز ابواسماء رحبی بھی دمشق میں رہتے تھے۔(تقریب ص۲۶۲)اوریہ بھی آخری عمر میں شام میں رہتے تھے۔(تقریب ص۱۷۴وتہذیب التہذیب ص۲۲۶ج۵) اورابواسماء رحبی سے ان کا سماع بھی دوسری متعدد احادیث میں ثابت ہے۔تو اگر یہ روایت عن سے منقول ہے تو بھی امام بخاری وامام مسلم سب کے نزدیک یہ معنعن مقبول ہے۔ردکرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔اگر صرف تدلیس کی وجہ سے کسی کی روایات کو رد کرنا شروع کیا جائے۔تو بہت سی احادیث سے ہاتھ دھوناپڑے گا۔
اسی حدیث میں ابن خلدون اوراختر کاشمیری نے سفیان ثوریؓ کو بھی مدلس کہہ کر روایت کو مجروح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔کاش ابن خلدون اوراخترصاحب کچھ انصاف سے کام لیتے۔اس مقام پر زیادہ مناسب ہے کہ وہ عبارت نقل کردوں جو کہ علامہ ذہبی نے عقیلی کے رد میں لکھی ہے۔جب اس نے علی ابن المدینی پر جرح کی کہ ’’افما لک عقل یا عقیلی اتدری فیمن تتکلم (میزان ص۱۴۰ج۳)‘‘سفیان ثوریؓ کی تدلیس کا کچھ حصہ محدثین نے ذکر کیا ہے لیکن اس کی وجہ سے کسی نے بھی ان کی روایت کو رد نہیں کیاہے۔
حافظ ابن حجرؒ نے تقریب التہذیب میں لکھا ہے کہ:’’سفیان بن سعید بن مسروق الثوری ابوعبداﷲ الکوفی ثقۃ حافظ فقیہ عابد امام حجۃ… الخ (ص۱۲۸)‘‘تہذیب التہذیب میں حافظ ابن حجرؒ نے ان کے اساتذہ میں خالد الخداء کا نام بھی لکھا ہے۔جو اس حدیث میں ابھی ان کے استاد ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خالد الخداء سے ان کی ملاقات اورسماع ثابت ہے۔باقی ان کی توثیق توتوثیق سے بقول خطیب بغدادی یہ مستغنی ہیں:’’کمافی تھذیب التھذیب کان اماما من ائمۃ المسلمین وعالما من اعلام الدین مجمعا علی امامتہ بحیث یستغنی عن تزکیتہ مع الاتقان والحفظ والمغفرفۃ والضبط والورع والزھد (ص۱۱۴،ج۴)‘‘’’وقال النسائی ھو اجل من ان یقال فیہ ثقۃ …الخ (تہذیب التہذیب ص۱۱۴ج۴)‘‘’’وقال صالح بن محمد بن سفیان لیس یقدمہ عندی احمد فی الدنیا (تہذیب التہذیب ص۴۱۵ ج۴)‘‘
اسی حدیث میں ابن خلدون اوراخترصاحب نے عبدالرزاق بن ھمام پر بھی جرح کی ہے کہ وہ شیعہ تھے۔ان کے تشیع کے بارے میں واقعی اقوال ہیں کہ یہ شیعہ تھے۔ لیکن ثقہ تھے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ نے تقریب التہذیب میں لکھا ہے کہ’’ثقہ حافظ مصنف شھیر