حاتم نے ان کے اورکچھ دوسرے راویوں کے بارے میں فرمایا کہ’’ومحلھم عندنا محل الصدق (تہذیب التہذیب ص۱۶۸ج۱)‘‘
ان سب اقوال سے معلوم ہوا کہ ابراہیم قوی ہیں اورثقہ ہیں۔ان کے بیٹے اسماعیل کے بارے میں جرح کے اقوال بھی مروی ہیں۔لیکن محدثین نے توثیق بھی کی ہے۔ترمذی اور ابن ماجہ کے راوی ہیں۔(تقریب ص۳۲)
علامہ ابوالحجاج مزی نے تہذیب الکمال میں لکھا ہے کہ:’’قال عبداﷲ سالت ابی عن ابراہیم بن مھاجر فقال لیس بہ باس کذاوکذاوسالتہ عن ابنہ اسماعیل فقال ابوہ قوی فی الحدیث منہ وروی لہ الترمذی وابن ماجہ (تہذیب الکمال ص۴۹ج۱)‘‘(نقلاً عن مضمون مولوی عبدالشکور صاحب کشمیری)یعنی عبداﷲ نے اپنے والد امام احمد سے ابراہیم کے متعلق پوچھا تو کہا کہ کوئی خرابی نہیں۔پھر ان کے بیٹے کے متعلق پوچھا یعنی اسماعیل کے متعلق پوچھا تو کہا کہ ان کے والد ان سے زیادہ قوی ہیں۔
محدثین کے نزدیک تو باپ بیٹے سے زیادہ قوی ہیں۔لیکن اختر صاحب لکھتے ہیں کہ اس کا باپ اس سے بلند درجے کاضعیف ہے۔یہ اخترصاحب کا اگرذاتی خیال ہو تو الگ بات ہے۔باقی کسی محدث نے نہیں لکھا ہے۔
۲۲… بائیسویں روایت جس پر ابن خلدون اوراخترصاحب نے جرح کی ہے وہ ابن ماجہ کی حضرت ثوبانؓ کی روایت ہے کہ جس کے الفاظ یہ ہیں:’’عن ثوبانؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ یقتل عند کنز کم ثلاثہ کلھم ابن خلیفہ ثم لایصیر الی واحد منھم ثم تطلع الرأیات السود من قبل المشرق‘‘
ابن خلدون لکھتے ہیں کہ:’’اس روایت کے راوی سب صحیحین کے ہیں۔ البتہ ابوقلابہ مدلس ہیں۔‘‘(مقدمہ ج۱ص۳۲۰)
حافظ ابن حجرؒ نے ان کے متعلق تقریب التہذیب میں لکھا ہے کہ یہ صحاح ستہ کے راوی ہی۔ ثقہ اورفاضل ہیں(تقریب ص۱۷۴) اورتہذیب التہذیب میں حافظ ابن حجر نے ان کی توثیق پر ابن سعد، مسلم بن یسار،ابن سیرین ،ایوب سختیانی،عجلی وغیرہ کے اقوال نقل کئے ہیں اور ابتداء میں لکھا ہے کہ:’’احدالاعلام (تہذیب ص۲۲۴تا۲۶ ج۵)‘‘حافظ نے ان کی تدلیس کی بھی نفی کی ہے کہ ’’ولایعرف لہ تدلیس (تہذیب ص۲۲۶ج۵)‘‘