بھی محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے تقریب میں لکھا ہے کہ ’’صدوق (ص۱۱۸)‘‘ یعنی سچے تھے اور علامہ ذہبی نے یحییٰ بن معین سے نقل کیا ہے کہ ’’لاباس بہ (ص۱۲۴ج۲میزان الاعتدال)‘‘یعنی ان میں کوئی خرابی نہیں تھی اورحافظ ابن حجرؒ نے تہذیب التہذیب میں یحییٰ بن معین کے علاوہ صالح جزرہ کا قول بھی ان کی توثیق میں نقل کیا ہے۔نیز یہ ترمذی، نسائی اورابن ماجہ کے راوی ہیں۔حالانکہ امام نسائی کے نزدیک جو راوی مجروح ہوتا ہے وہ اس سے نقل نہیں کرتے ہیں۔تو معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی قوی ہیں۔(تہذیب التہذیب ص۴۷۷ج۳)
اورخود ابن خلدون نے لکھا ہے کہ:’’وجعلہ الذھبی ممن لم یقدح فیہ کلام من تکلم فیہ (مقدمہ ابن خلدون ج۱ص۳۲۰)‘‘یعنی ذہبیؒ نے ان کو ان لوگوں میں شمار کیا ہے کہ کلام کرنے والوں کے کلام سے ان کے بارے میں کوئی قدح لازم نہیں آتی ہے۔یعنی یہ ثقہ ہیں۔کلام کرنے والوں کے کلام کا کچھ اثر نہیں ہوگا۔لہٰذا اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت بھی صحیح ہے۔
۲۱… اکیسویں راویت جس پر ابن خلدون اوران کے مقلد اختر کاشمیر ی نے کلام کیا ہے وہ حضرت عبداﷲ ابن عباسؓ کی مستدرک حاکم والی روایت ہے۔جس کے الفاظ یہ ہیں:’’قال ابن عباس منا اھل البیت اربعۃ منا السفاح ومنا المنذر ومنا المھدی (الی ان قال)واما المھدی الذی یملٔا الارض عدلا کما ملئت جورا…الخ‘‘
اس روایت میں اسماعیل بن ابراہیم یعنی باپ اوربیٹے دونوں پر جرح کی گئی ہے اور ابن خلدون نے کہا ہے کہ دونوں ضعیف ہیں۔(ملاحظہ ہو مقدمہ ج۱ص۳۲۰)
ابراہیم بن مہاجر محدثین کے نزدیک قوی ہیں۔ مسلم اورسنن اربعہ کے راوی ہیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے تقریب میں لکھا ہے ’’صدوق (ص۲۳)‘‘یعنی سچے تھے۔ذہبیؒ نے میزان الاعتدال میں امام احمد کا قول نقل کیا ہے کہ ’’لابأس بہ (ص۶۷ج۱)‘‘یعنی ان میں کوئی خرابی نہیں ہے۔حافظ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں لکھا ہے کہ ’’وقال الثوری واحمد لاباس بہ (ص۱۶۷ج۱)‘‘یعنی سفیان ثوری اورامام احمد نے فرمایا کہ ان میں کوئی خرابی نہ تھی۔ امام نسائی نے بھی فرمایا:’’لیس بہ بأس (تہذیب ص۱۶۸ج۱)‘‘ابن سعد نے کہا ’’ثقہ (تہذیب ص۱۶۸ج۱)‘‘علامہ ساجی نے کہا کہ صدوق،ابوداؤد نے کہا کہ ’’صالح الحدیث‘‘ابو