بعد صراحۃ الحدیث (فیض الباری ص۴۵تا۴۷ج۴)‘‘
{یعنی راجح میرے نزدیک بخاری کے الفاظ ’’وامامکم منکم‘‘ ہیںجملہ اسمیہ کے ساتھ اوراس سے مراد امام مہدی ہیں۔ اس لئے کہ ابن ماجہ میں ص۳۰۸پر صحیح حدیث موجود ہے کہ نبیکریمﷺ سے پوچھاگیا کہ اس دن عرب کہاں ہوں گے ۔ تو فرمایا وہ تھوڑے سے بیت المقدس کے پاس ہوںگے اوران کا امام ایک نیک آدمی یعنی مہدی ہوںگے۔ پس اس اثناء میں ان کا امام صبح کی نماز کے لئے آگے آچکاہوگا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صبح کے وقت اتریں گے تو وہ امام واپس ہوگا۔اب اس حدیث میںصراحت ہوگئی کہ امام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ دوسرا ہو گا اوروہ امام مہدی ہوں گے نہ کہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۔اب اس حدیث کی صراحت کے بعد راویوں کے اختلاف الفاظ کا کچھ اعتبار نہیں۔
اس کے بعد پھر فرماتے ہیں کہ:’’فالامام فی اول صلوٰۃ بعد نزول المسیح علیہ السلام یکون ہوالمھدی علیہ السلام لانھاکانت اقیمت لہ ثم بعد ھا یصلی بھم المسیح علیہ السلام(فیض الباری ص۴۷ج۴)‘‘
{یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے کے بعد پہلی نماز میں تو امام حضرت مہدی ہوںگے۔کیونکہ ان ہی کی امامت میں وہ نماز شروع ہونے والی تھی۔لیکن اس کے بعد پھر دوسری نمازوں میں امامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کریںگے۔ حضرت شاہ صاحب کے ان اقوال سے کئی باتیں معلوم ہوئیں:
۱… ایک یہ کہ ’’وامامکم منکم‘‘ والی حدیث میں لوگوں نے جو دوسرے الفاظ اورکچھ تاویلیں نقل کی ہیں،وہ صحیح نہیںہیں۔صحیح الفاظ یہی ہیں۔
۲… دوسری بات یہ ہے کہ اس جملے سے مراد حتماً حضرت مہدی ہی ہیں اورابن ماجہ کی حدیث جس کی سندقوی ہے۔اس پر صراحتاً دلالت کرتی ہے۔
۳… تیسری بات یہ کہ پہلی نمازکی امامت توامام مہدی کریںگے اور دوسری نمازوں کی امامت پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کریںگے۔
پھر مکررعرض کرتا ہوں کہ اس سے وہ اعتراض جو ابن خلدون اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اوراختر کاشمیری صاحب وغیرھم کا تھا (کہ مہدی کاذکر بخاری ومسلم وغیرہ میں نہیں ہے جیسے کہ مولانا مودودی صاحب نے ’’رسائل ومسائل‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ جس مسئلے کی دین میں اتنی بڑی اہمیت ہو اسے محض اخبار آحاد پر چھوڑا جا سکتا تھا اوراخبار آحاد بھی اس