اورپھر دونوں حدیثوں کے بارے میں لکھا ہے کہ:’’حسنان صحیحان (ص۷۶ج۹)‘‘کہ یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں اوراس کے بعد ام سلمہؓ اوردوسرے صحابہ کی روایتیں بھی نقل کی ہیں اوراس قول کو راجح قرار دیا ہے کہ ’’وامامکم منکم‘‘ سے مراد حضرت مہدی ہی ہیں۔
پھراس باب کے آخر میں فوائد کے تحت فائدہ ثانی میں لکھا ہے کہ :’’ویؤمکم منکم قدروی انہ یصلی وراء امام المسلمین خضوعا لدین محمد اوشریعۃ (ص۷۸ج۹)‘‘کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسلمانوں کے امام کے پیچھے نمازپڑھیںگے۔دین اسلام کے لئے خضوع اختیار کرتے ہوئے یعنی دین اسلام کی تائید کے لئے وہ پہلے مسلمانوں کے امام کے پیچھے نمازپڑھیںگے۔اس سے بھی مراد مہدی ہی ہیں۔ اس لئے کہ سب مسلمانوں کااس پر اجماع ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے امام حضرت مہدی ہی ہوںگے۔
۲۲… حافظ منذری نے بھی ابوداؤد کی تلخیص میں ظہور مہدی کی کئی احادیث کے متعلق صحت کاحکم لگایا ہے۔تو معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی ظہورمہدی کی حدیثیں صحیح ہیں۔ملاحظہ ہو (شرح معالم السنن للحظابی ص۱۵۶تا۱۶۲ج۶)
۲۳… جیسے کہ باب کے شروع میں ہم حضرت شاہ انور شاہ کشمیری کاقول نقل کر چکے ہیں۔ اب حضرت کی تقریر بخاری المسمے بفیض الباری کے اقتباسات نقل کئے جاتے ہیں:’’قولہ کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم‘‘بخاری کی اس حدیث کی شرح میں حضرت لکھتے ہیں:’’المتبادر منہ الامام المھدی (فیض الباری ص۴۴ج۴)‘‘یعنی وامامکم منکم سے ظاہر مراد حضرت مہدی ہی ہیں۔ اورپھر مختلف احادیث کے الفاظ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’والراجع عندی لفظ البخاری ای وامامکم منکم بالجملۃ الاسمیہ والمراد منہ الامام المھدی لماعند ابن ماجۃ ص۳۰۸باسناد قوی یارسول اﷲ فاین العرب یومئذ قال ھم یومئذ قلیل ببیت المقدس وامامھم رجل صالح فبینما امامھم قد تقدم یصلی بھم الصبح اذانزل علیھم عیسیٰ بن مریم(الی ان قال) قد صریح فی ان مصداق الامام فی الاحادیث ھو الامام المھدی دون عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام فلایبالی فیہ باختلاف الروایۃ