{یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب امام مہدی کے پیچھے نماز پڑھیںگے تو اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ زمین ایسے آدمی سے خالی نہیںہوگی جو خدا کے دین کی خدمت دلیل سے کرے گا۔}
حافظ ابن حجرؒ کی ان عبارتوں سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوہریرہؓ کی بخاری ومسلم والی احادیث میں ’’وامامکم منکم‘‘کے الفاظ سے مراد حضرت مہدی ہیں۔ جیسے کہ یہ بات پہلے مسلم کے شارحین کے حوالے سے گزر چکی ہے اوریہی علامی عینی نے عمدۃ القاری میں لکھا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کی رائے صحیح نہیں جو کہتے ہیں کہ بخاری ومسلم میں مہدی کاذکر نہیںہے اورنیز یہ بھی ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے پیچھے ان کی اقتداء میں نماز ادا کریںگے۔نیز فتح الباری میں ابن حجرؒ نے ابوالحسن الخسعیؒ کا جو قول نقل کیا ہے کہ ظہور مہدی کی احادیث متواتر ہیں اورپھر اس پرحافظ نے سکوت کیا ہے۔اس سے ثابت ہوا کہ حافظ ابن حجرؒ کے نزدیک بھی ظہور مہدی کی احادیث متواتر ہیں۔ اگر وہ خود اس کے قائل نہ ہوتے تو پھر اس کی تردید کرتے۔جیسے کہ ان کا یہ طریقہ فتح الباری دیکھنے والوں پرمخفی نہیں کہ جب وہ کسی کاقول نقل کرتے ہیں اوروہ ان کے نزدیک صحیح نہیں ہوتا تو ضرور اس پر رد کرتے ہیں۔
۲۱… قاضی ابوبکر ابن العربی نے عارضۃ الاحوذی شرح ترمذی میں باب نزول عیسیٰ علیہ السلام کے شروع میں ’’وامامکم منکم‘‘کے الفاظ کی شرح کرتے ہوئے مختلف اقوال نقل کئے اور پھر ایک قول یہ نقل کیا کہ اس سے مراد حضرت مہدی ہیں اورپھر بہت سی روایتیں ذکر کر کے اس قول کو ترجیح دی ہے۔ان کے الفاظ یہ ہیں کہ:’’وقیل یعنی المھدی الذی روی ابوعیسی وغیرہ عن زربن عبداﷲ قال قال رسول اﷲ ﷺ لاتذھب الدنیا حتی یملک العرب رجل من اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی…الخ (عارضۃ الاحوذی شرح سنن ترمذی ص۷۸ج۹)‘‘
{یعنی کہاگیا ہے کہ مراد ’’وامامکم منکم‘‘سے مہدی ہیں۔جن کے متعلق امام ترمذیؒ نے حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی حدیث نقل کی ہے کہ دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک عرب کا بادشاہ میرے اہل بیت میں سے ایک آدمی نہ بنے جس کا نام میرے نام پرہوگا۔}
اس کے بعد ابوبکرؒ نے اس قول کی تائید کے لیے ابوہریرہ ؓ کی روایت بھی نقل کی ہے