چکی ہیں اورپھر شوکانی کے اس قول پر سکوت اختیار کیا کوئی تردید نہیں کی۔ جس سے معلوم ہوا کہ علامہ مبارک پوریؒ کو بھی شوکانی کی اس تحقیق پر اعتماد ہے۔
۱۹… امام شوکانی بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے ظہور مہدی کی احادیث کو متواتر تسلیم کیا ہے اوراس پر انہوں نے مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔تحفۃ الاحوذی میں علامہ شوکانی کا یہ قول نقل کیاگیاہے کہ:
’’وقال القاضی الشوکانی فی الفتح الربانی الذی امکن الوقوف علیہ من الاحادیث الواردۃ فی المھدی المنتظر خمسون حدیثا وثمانیۃ وعشرون اثراثم سردھا مع الکلام علیھا ثم قال وجمع ماسقناہ بالغ حد التواتر کما لایخفی علی منلہ فضل اطلاع (ص۴۸۵ج۶)‘‘
{یعنی شوکانی نے اپنی کتاب الفتح الربانی میں کہا ہے کہ مہدی کی وہ احادیث جن پر واقف ہونا ان کے لئے ممکن ہوا۔پچاس مرفوع احادیث اوراٹھائیس آثار ہیں۔ پھرانہوں نے ان سب احادیث کے سند وغیرہ کلام کے ساتھ نقل کیا ہے اورپھرفرمایا کہ جتنی احادیث ہم نے نقل کی ہیں۔ یہ تواتر کی حد تک پہنچتی ہیں۔جیسے کہ علم حدیث پر اطلاع رکھنے والوں سے مخفی نہیں۔}
شوکانی کی اس عبارت سے بھی معلوم ہوا کہ مہدی کی احادیث متواتر ہیں لہٰذا اس پر عقیدہ رکھنا واجب ہے۔
۲۰… حافظ ابن حجرؒ نے بخاری کی شرح فتح الباری میں باب نزول عیسیٰ بن مریم میں حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث میں ’’وامامکم منکم‘‘کی شرح ابوالحسن الخسعی الابدی سے نقل کی ہے کہ: ’’تواترت الاخبار بان المھدی من ھذا الامۃ وان عیسیٰ یصلی خلفہ …الخ (فتح الباری ص۳۵۸ج۶)‘‘{یعنی احادیث متواتر سے ثابت ہے کہ مہدی اس امت میں سے ہوں گے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔}
اور اس کے بعد پھر حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیںکہ: ’’وفی صلوٰۃ عیسی خلف رجل من ھذاالامۃ مع کونہ فی اخر الزمان وقرب قیام الساعۃ دلالۃ لصحیح من الاقوال ان الارض لاتخلوا عن قائم اﷲ بحجۃ (فتح الباری ص۳۵۸تا۳۵۹ج۶)‘‘