صحیح وحسن ضعیف (ص۴۸۴ج۶)‘‘{یعنی ان صحابہ سے جو احادیث منقول ہیں وہ کچھ صحیح ہیں اورکچھ ضعیف ۔}
تو معلوم ہوا کہ ظہور مہدی کی بعض احادیث ان کے نزدیک صحیح اورحسن بھی ہیں۔ اس لئے علامہ مبارک پوریؒ نے ابن خلدون کی تردید کی ہے۔ جن کے اتباع میں اختر کاشمیری صاحب اوردوسرے کچھ لوگوں نے بھی مہدی کی احادیث کوتضعیف وتردید کی ہے۔
علامہ مبارک پوریؒ فرماتے ہیں کہ:’’وقد بالغ الامام المورخ عبدالرحمن بن خلدون المغربی فی تاریخہ فی تضعیف احادیث المھدی کلھا فلم یصب بل اخطا…الخ (تحفۃ الاحوذی ص۴۸۴ج۶)‘‘{یعنی ابن خلدون نے احادیث ظہور مہدی کی خوب تضعیف کی ہے اورسب روایتوں کو ضعیف کہا ہے۔ لیکن یہ ان کی غلطی اورخطاء ہے۔} اور اس کے بعدپھر علامہ مبارک پوریؒ نے اپنی تحقیق یہ ذکر کی ہے :
’’قلت الاحادیث الواردۃ فی خروج المھدی کثیرۃ جداولکن اکثرھم ضعاف ولاشک فی ان حدیث عبداﷲ بن مسعود الذی رواہ الترمذی فی ھذا الباب لاینحط عن درجۃ الحسن ولہ شواھد کثیرۃ من بین حسان وضعاف فحدیث عبداﷲ بن مسعود ھذا شواھدہ وتوابعہ صالح للا حتجاج بلامریۃ فالقول بخروج المھدی وظہورہ ھوالقول الحق والصواب (تخفۃ الاحوذی ص۴۸۵ج۶)‘‘{میں کہتا ہوں کہ خروج مہدی کی احادیث بہت زیادہ ہیں ۔لیکن اکثر ضعیف ہیں اوراس میں کوئی شک نہیں کہ عبداﷲ بن مسعود ؓکی یہی حدیث جو امام ترمذیؒ نے باب ماجاء فی المہدی میں نقل کی ہے یہ حسن ہے اوراس کے بہت سے شواہد موجود ہیں جوحسن کے درجہ کے ہیں اوربعض ضعیف ہیں۔ لیکن عبداﷲ بن مسعودؓ کی یہ حدیث اپنے توابع وشواہد کے ساتھ دلیل کے لئے بلاشک کافی ہے۔لہٰذا امام مہدی کی خروج کا قول کرنا ہی حق ہے۔
اس عبارت میں اگرچہ مہدی کی عام احادیث کو علامہ نے ضعیف کہا۔لیکن خود انہوں نے کچھ حدیثوں کو حسن تسلیم کیا ہے اوراس سے پہلے ان ہی کی عبارت میں گزرا کہ کچھ کو صحیح تسلیم کر چکے اوراس کے علاوہ دوسرے محدثین نے تواتر سے قول کیا ہے اورخود علامہ مبارک پوریؒ نے بھی مہدی کی بحث کے آخر میں علامہ شوکانی کا قول نقل کیا ہے کہ مہدی کی احادیث حد تواتر کو پہنچ چکی