عبداﷲ بن عمرؓ ، حضرت طلحہ بن عبیداﷲؓ، حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت ابوسعید خدریؓ،حضرت انس ؓ، حضرت ام حبیبہؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت ثوبان ؓ، حضرت عبداﷲ بن الحارث بن جزء الزبیدیؓ، حضرت قرۃ المزنیؓ، حضرت جابرؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت حذیفہؓ، حضرت ابوامامہؓ، عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہؓ، حضرت علی ھلالیؓ، حضرت عوف بن مالکؓؓ ،حضرت سعید بن مسیبؓ، حضرت قتادہ ؓ، شہر بن حوشبؓ۔(التعلیق الصبیح ص۱۹۷ج۶)‘‘
اس کے بعد مولانا نے فرمایا کہ:’’باسانید مختلفۃ منھا صحیح ومنھا حسن ومنھا ضعیف (ص۱۹۷ج۶)‘‘یعنی ظہور مہدی کی احادیث مختلف درجات کی ہیں۔ بعض صحیح ہیں اوربعض حسن وضعیف ہیں۔اورپھر ظہور مہدی کے متعلق کل احادیث کی تعداد بتائی کہ :’’ذاد الاحادیث المرفوعۃ فی المھدی علی تسعین والا ثارسوی ذالک (ص۱۹۷ج۶)‘‘یعنی ظہور مہدی کی مرفوع احادیث نوے سے زیادہ ہیں اورآثار صحابہ وتابعین اس کے علاوہ ہیں۔ اور پھر سیوطیؒ کے حوالے سے ابوالحسن محمد بن الحسین بن ابراہیم کا قول نقل کیا ہے کہ:’’قد تواترت الاخبار واستفاضت بکثرت رواتھا عن المصطفیٰ بمجیی المھدی وانہ من اھل بیتہ …الخ (ص۱۹۷ج۶)‘‘یعنی ظہور مہدی کی احادیث تواتر کے طریقے سے نبی کریمﷺ سے منقول ہیں۔
محدثین کے ان اقوال سے معلوم ہوا کہ ظہو رمہدی کی احادیث صرف صحیح نہیں ۔بلکہ متواتر ہیں اوراتنے لوگوں سے مروی ہیں جن کا جھوٹ پر جمع ہو جانا ممکن نہیں اورپھر یہ کہ تیس احادیث ایسی ہیں ۔ جن میں مہدی کے نام کی صراحت موجود ہے اوربعض میںاگر نام مذکور نہیں ہے تو یہ قاعدہ محدثین کے ہاں مشہور ہے کہ اگر ایک واقعہ کے متعلق مختلف احادیث وارد ہوں تو بعض مجمل ہوں اوربعض مفصل تو مجمل کو مفصل ہی کے اوپر حمل کیاجاتا ہے۔
اس لئے علامہ سفارینی نے فرمایا ہے کہ ظہو رمہدی کی احادیث کے تواتر کی وجہ سے اس عقیدے پر ایمان واجب ہے۔جیسے کہ اگلے باب میں انشاء اﷲ متکلمین کے اقوال کے ضمن میں ہم ان کاقول نقل کریںگے۔
۱۸… علامہ عبدالرحمن مبارکپوریؒ نے ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی میں باب ماجاء فی المہدی میں لکھا ہے کہ: