اعتقاد رکھنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ اب اس کے بعد یہ کہنا کہ مہدی کے بارے میں کوئی حدیث صحیح نہیں،بالکل غلط ثابت ہوا۔ کیونکہ محدثین کے نزدیک ظہور مہدی کی احادیث تواتر تک پہنچ گئی ہیں جہاں کلام کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔کیونکہ احادیث متواتر کی سند سے بحث نہیں کی جاتی۔
حافظ ابن حجرؒ نے شرح نخبۃ الفکر میں تواتر کے ساتھ بحث میں لکھا ہے کہ: ’’والمتواتر لایبحث عن رجالہ بل یجب العمل بہ من غیر بحث (ص۱۲)‘‘ یعنی حدیث متواتر کی سند اوراس کے رجال سے بحث نہیں کی جاتی ہے۔ بلکہ اس پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے اوریہی بات مولانامحمدحسین ہزاروی نے شرح نخبۃ الفکر کی فارسی شرح (توضیح النظر ص۳۹)میں لکھی ہے جومشہور اہلحدیث عالم علامہ سید نذیرحسین دہلوی کے شاگرد ہیں۔
اوردوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ جو لوگ اس بناء پر انکار کرتے ہیں کہ مہدی کے متعلق احادیث صحیحین میں موجود نہیں،یہ غلط ہے۔عبارت یہ ہے:’’واعلم انہ قد طعن بعض المؤرخین فی احادیث المھدی وقال انھا احادیث ضعیفۃ ولذااعرض الشیخان البخاری ومسلم عن اخراجھا…الخ (الی ان قال) قلت وھذا غلط وشطط وقطعاً وبتاتافان احادیث المھدی قد اخرجھا ائمۃ الحدیث فی دواوین السنۃ کلامام احمدؒ والترمذیؒ البزازؒ وابن ماجہؒ والحاکمؒ والطبرانیؒ وابی یعلی الموصلی ونعیم بن حماد شیخ البخاری وغیرھم عن جماعۃ من الصحابہ…الخ (ص۱۹۷ج۶تعلیق الصبیح شرح مشکوٰۃ المصابیح)‘‘
یعنی بعض مورخین(ابن خلدون مرادہے) نے ظہو رمہدی کی احادیث کو مطعون کیا ہے کہ سب ضعیف احادیث ہیں۔ اس لئے بخاری ومسلم نے ان احادیث سے اعراض کیا ہے۔ لیکن غلط ہے کیونکہ ظہور مہدی کی احادیث کو ائمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔جیسے کہ امام احمدؒ ،امام ترمذیؒ، بزارؒ،ابن ماجہؒ ،حاکمؒ، طبرانیؒ ،ابویعلی موصلی،ؒنعیم بن حماد جو امام بخاریؒ کے استاد ہیںاوران کے علاوہ بہت سے محدثین نے صحابہ اورتابعین کی ایک جماعت سے ان احادیث کو نقل کیا ہے۔
اس کے بعد مولانا نے ان صحابہ اورتابعین کے نام لکھے ہیں۔ جن کی تعداد تقریباً ۲۵ ہے جو درج ذیل ہے:’’حضرت علیؓ ،حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت عبداﷲ بن عباسؓ، حضرت