یعنی ظہور مہدی کے مسئلے میں حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی ترمذی والی حدیث صحیح ہے اور یہ قول انہوں نے ابن العربی سے نقل کیا ہے۔ تو معلوم ہواکہ ان دونوں کے نزدیک وہ روایت صحیح ہے۔ تواختر صاحب کا یہ اعتراض بھی ختم ہوا کہ کوئی حدیث صحیح نہیں ہے اوراگر صحیح حدیث موجود ہو تو وہ ماننے کے لئے تیار ہیں۔جیسے کہ انہوںنے اپنے اردو ڈائجسٹ والے مضمون میں لکھا تھا کہ خدا کے نبی کے بعد کسی شخص پر ایمان بالغیب ممکن نہیں۔جب تک اس کے بارے میں اﷲ کے رسولﷺ کا کوئی معتبر ارشاد سامنے نہ آجائے۔ امید ہے کہ اب مہدی پر اخترصاحب کے ایمان بالغیب ممکن ہوگا۔کیونکہ محدثین کی صراحت کے مطابق ابن مسعودؓ کی ترمذی والی روایت صحیح ہے۔
نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مہدی سے مراد مہدی بن جعفر نہیں۔بلکہ وہ موعود مہدی آخری زمانے میں قرب قیامت میں ظاہر ہوں گے۔
۱۶… اسی طرح ملاعلی قاری نے مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں مہدی کے متعلق وارد احادیث کی شرح کی ہے اورپھر مہدی موعود عنداھل السنۃ والجماعۃ اورموعود عندالشیعۃ پر مفصل کلام کیا ہے اور اہل تشیع کی تردید کی ہے اوراس کے ساتھ ہندوستان کے فرقہ مہدویہ کی بھی تردید کی ہے۔ (ملاحظہ ہو مرقاۃ ازص۱۷۳تا۱۸۰ج۱۰)
۱۷… حضرت مولانامحمد ادریس کاندھلوی ؒ نے بھی التعلیق الصبیح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں اس مسئلے پر طویل کلام کیا ہے اورمختلف احادیث کی تطبیق کی ہے۔ چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ: ’’وبالجملۃ ان احادیث ظہور المھدی قد بلغت فی الکثرۃ حد التواتر وقد تلقاھا الامۃ بالقبول فیجب اعتقادہ ولا یسوغ ردہ وانکارہ کماذکر المتکلمون فی العقائد الازمۃ التی یجب اعتقادھا علی المسلم۰الخ (ص۱۹۸ج۶)‘‘ خلاصہ یہ ہے کہ ظہور مہدی کی احادیث تواتر کو پہنچ چکی ہیں اورپوری امت ان احادیث کو قبول کر چکی ہے۔لہٰذا ظہور مہدی کا اعتقاد واجب ہے اورانکار کی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ متکلمین نے اس کو ان عقائد میں ذکر کیا ہے۔جن کا اعتقاد ہر مسلمان پر واجب اورضروری ہے۔
حضرت مولانا کی اس عبارت سے کئی فوائد حاصل ہوئے ۔ایک تو یہ کہ ظہور مہدی کی احادیث حد تواتر تک پہنچ چکی ہیں۔ دوسرا یہ کہ مہدی کے ظہور کا عقیدہ ان عقائد میں سے ہے جن کا